نیوزی لینڈ جنوب مغربی بحراوقےانوس کے کنارے واقع ملک ہے‘ یہ دوبڑے اور 600 چھوٹے چھوٹے جزائر سے بناہے‘آبادی 50 لاکھ 6ہزار370 نفوس پر مشتمل ہے ‘رقبہ 2 لاکھ 68 ہزار مربع کلو میٹر ہے‘ جی ڈی پی199 ارب ڈالر یعنی پاکستان سے15گنا زیادہ ہے‘ فی کس آمدنی40266 ڈالرسالانہ ہے جو امریکہ کے لگ بھگ ہے‘ جیسنڈا آرڈرن ملک کی خاتون وزیراعظم ہیں یہ وہی خاتون ہیں جو گزشتہ برس کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملوں کے بعد مقبول ہوئیں‘اس خاتون نے حملوں کو اتنا سنجیدہ لیا کہ یہ میڈیا پر روتی دکھائی دیں‘انہوں نے حملوں کو قومی سانحہ قرار دےا‘ یہ ہر شہید مسلمان کے گھر بار بار گئیں‘ یہ لواحقین کو تسلی دیتی رہیں‘ یہ دوپٹہ اوڑھ کراور شلوار قمےض پہن کر مسلمان خواتین کے درمیان بیٹھی رہیں‘ انہوں نے پورے ملک میں اسلحہ پر پابندی لگا دی اور پورے ملک میں قرآن خوانی کا اہتمام کراتی رہیں‘ ان کی سنجیدگی‘ ذہانت‘ فطانت اور متانت کو دیکھ کر پوری دنیا انگشت بدنداں رہ گئی اور یہ پوری قوم کیلئے رول ماڈل بن گئیں‘30 مئی کو نیوزی لینڈ کے وزیر صحت میڈیا پر آئے اور انہوں نے مسکراتے ہوئے اعلان کیا کہ آج کورونا کا آخری مریض ہسپتال سے فارغ ہوگیا ہے اور کل سے ہم لاک ڈاﺅن ختم کردیں گے اور شہری ساحل سمندر پر جا سکتے ہیں‘ اپنے دفاتر میں بیٹھ سکتے ہیں‘ کیفے اور ریسٹورنٹ میں کھانا کھا سکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک ہفتے سے کورونا سے متاثرہ کوئی نیا مریض سامنے نہیں آیا اور شریر مسکراہٹ کےساتھ یہ بھی فرمایا کہ شہری مصافحہ اور معانقہ بھی کر سکتے ہیں‘ان کے اعلان کے بعد نیوزی لینڈ کے ساحل‘ دفاتر‘ شاپنگ مال اور ہوٹل آباد ہوگئے‘ شہریوں نے وزیراعظم زندہ باد کے نعرے بلند کئے اور معمولات زندگی بحال ہوگئے لیکن یہ کامیابی ایک دن میں نہیں ملی اس منزل کے حصول کے پس منظر میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی دیانتداری‘ قوت فیصلہ‘ قوم سے محبت ‘شہریوں کا وزیراعظم پراعتماد اور کابینہ میں پچاس فیصد سے زائد سائنسدانوں‘ ڈاکٹروں اور پروفیسروں کی موجودگی جیسے عوامل ہیں‘ مثلاً نیوزی لینڈ نے 3 فروری کو بیرون ملک سے آنیوالی پروازوں پر پابندی لگادی حالانکہ تب تک کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آےا تھا ‘حکومت نے سرکاری ہسپتالوں میں ہر بالغ شخص کو مفت ٹیسٹ کی سہولت دی‘ 28فروری کو ملک میں پہلا کیس سامنے آیا‘ 26مارچ تک پورے ملک میں صرف102 کیس سامنے آئے تھے تب حکومت نے مکمل لاک ڈاﺅن کا اعلان کر دیا‘ سکول‘کالج‘ ریسٹورنٹ بند ہوگئے اور گھر سے باہر صرف سودا سلف‘ دوائی کیلئے ایک شہر ی کو باہر نکلنے کی اجازت تھی‘ پابندی کا یہ حال تھا کہ نیوزی لینڈ کے وزیر صحت اپنے اہل خانہ کو لے کر صرف20 منٹ کیلئے ساحل پر چہل قدمی کیلئے گئے‘ وزیراعظم نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا‘وزیراعظم ہرشام خود پریس کانفرنس کرکے قوم کو صورتحال سے باخبر کرتیں‘ کسی وزیرمشیر کو کورونا پر بات کرنے کی اجازت نہ تھی‘ سٹے ہوم سٹے سیف کا سلوگن جیسنڈا آرڈرن نے متعارف کرایا ‘12اپریل کو گوگل نے ریسرچ کی تو پتہ چلا حکومت کے90 فیصد ایس او پیز پر شہری 100فیصد عمل کررہے ہیں۔
اور گوگل نے لوگوں سے پوچھا کہ آپ کی حکومت درست اقدامات کر رہی ہے تو تقریباً تمام لوگوں نے جواب دیا کہ ان کا وزیراعظم پر پورا اعتماد ہے‘ حکومت نے بھی عوام کو مایوس نہیں کیا‘50 لاکھ کی آبادی میں سے 27لاکھ سے زائد افراد کے ٹیسٹ کئے جو تقریباً55فیصدبنتے ہیں‘ شیرخوار بچوں سے لیکر20سال تک کے نوجوانوں کے ٹیسٹ نہیں ہوئے کیونکہ ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا مطلب تقرےباً ہر مرد اور خاتون کا ٹیسٹ کیا گیا ‘حکومت کے ان اقدامات کے باعث نیوزی لینڈ میں کورونا صرف1506 شہریوں کو متاثر کرسکا جن میں سے صرف21کی موت واقع ہوئی‘ حکومت اور میڈیا نے ہر موت کو اتنا سنجیدہ لیا کہ میڈیا خصوصاً اخبارات نے ہر مرنے والے شہری کی الگ الگ خبر بمعہ تصویر چھاپی‘ ہر مرنے والے کی آخری رسومات عزت و تکریم کے ساتھ ادا کی گئیں‘وزیراعظم نے بذات خود ہر مرنے والے شہری کے لواحقین سے تعزیت کی اور ہر متاثرہ مریض کو خود ٹیلی فون کرکے تسلی دی‘ وزیراعظم نے اپنی اور کابینہ کی تنخواہ میں20فیصد کٹوتی کا اعلان بھی کیا ان کے دیکھا دیکھی بڑے بڑے اداروں کے سربراہوں نے بھی اپنی تنخواہیں ورکروں کو دے دیں۔
اور وزیراعظم سے محبت اور اعتماد کا یہ عالم ہے کہ پورے ملک میں تاجروں نے منافع چھوڑ کر اصلی قیمت پر شہریوں کو اجناس بیچیں‘ وزیراعظم نے پچھلے 3ماہ میں4500 ٹیلی فون کالوں کا جواب دیا اور وہ کئی دن سے گھر نہیں گئیں اور دن میں20گھنٹے انٹرنیٹ پر آن لائن رہ کر ہر اجلاس کی خود صدارت کرتی ہیں اور آج چار ماہ بعد آپ ان کے چہرے پر سجی مسکراہٹ‘ طمانیت اور خوشی دیکھ کر حیران رہ جائیں گے 3فروری سے لے کر آج تک یہ خاتون وزیراعظم اگر مگر کے جھنجھٹ میں پڑیں نہ گومگو کی کیفیت کاشکار ہوئیں‘ انہوں نے کابینہ کے سائنسدان وزراءسے مل کر پالیسی بنائی قوم کو اعتماد میں لیا‘ سخت اورمشکل راستہ اپنایا اور پوری قوم کو لے کر اس کٹھن راہ پر چل پڑیں اور آج نیوزی لینڈ وہ واحد ملک ہے جو کورونا کو ختم کرکے لاک ڈاﺅن کھول رہا ہے اور ہم جیسے صبح کچھ کہتے ہیں‘ دوپہر کو کوئی اور کھچڑی بناتے ہیں‘ سہ پہر کو کچھ اور خیالی پلاﺅ پکاتے ہیں‘ شام کو کوئی نیا وژن لے آتے ہیں‘ رات کو کچھ اور سوچ لیتے ہیں اور اگلی صبح کل والے جملہ اقدامات پر لعنت بھیج کر نئی حماقتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔