انسانیت

 مکاﺅ‘ طوطوں کی ایک نایاب نسل ہے‘ یہ خوبصورت ترین طوطے ہوتے ہیں ‘رنگوں کے شاندار کمبی نیشن کے باعث پہلی نظر میں بھا جاتے ہیں‘قدرت نے مکاﺅ کے ایک اےک طوطے کو چھ چھ رنگ دیئے ہوئے ہیں‘ سرخ و سبز‘ نیلا پیلا‘ سنبلی اور فوجی رنگ انسان کو مبہوت کر دیتے ہیں‘میکسیکو‘ برازیل‘ ارجنٹینا کے بارانی جنگلات ان کا مسکن ہیں‘ یہ تےن فٹ تک لمبے ہوتے ہیں‘پاکستان میں اس نسل کے ایک طوطے کی قیمت 2لاکھ سے7لاکھ تک ہوتی ہے لیکن کہانی مکاﺅ کی نہیں زہرہ شاہ کی ہے‘ یہ ایسی کہانی ہے جو عبرت انگیز بھی ہے نفرت انگیز بھی اور سبق آموز بھی‘ یہ کہانی مظفرگڑھ کے کچے پکے مکانوںکی بھوک‘ پیاس‘ بے روزگاری‘ غربت اور تنگدستی سے شروع ہو کر راولپنڈی کے پوش علاقے کی ائرکنڈیشنڈ کوٹھیوں کی لالچ‘ ہوس‘ درندگی‘ جہالت‘ پاگل پن اور حرص کے چنگل میں پھنس کر آہوں‘ سسکیوں اوردلدوز چیخوںکےساتھ سسک سسک کر دم توڑ دیتی ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ جیتا جاگتا معاشرہ حسب سابق ‘ حسب دستوراور حسب عادت تماشا دیکھ کر اور چند ٹویٹس داغ کر لمبی تان کر سو جاتا ہے‘ زہرہ شاہ ابھی صرف8برس کی تھی‘ 8برس کے بچے اتنے معصوم ہوتے ہیں کہ ان کی زبان کی توتلاہٹ بھی ابھی ختم نہیں ہوتی‘ ابھی کھیلنے کودنے کے دن جانے مےںبھی10سال پڑے ہوتے ہیں۔

 زہرہ شاہ کے والدین غریب ہیں ‘یہ مظفرگڑھ میں رہتے ہیں‘اسلام آباد میں کئی گروہ پوش علاقوںمیں معصوم بچوں کو ملازم رکھوانے کا دھندہ کرتے ہیں‘ یہ والدین اور مالکان میں ڈیل کراتے ہیں‘ اپنی کمیشن لیتے ہیں اور بچے کو بغیرکسی معاہدے کے مالکان کے حوالے کرکے رفوچکر ہو جاتے ہیں‘زہرہ کی ڈیل8ماہ کیلئے80 ہزار روپے کے عوض ہوئی تھی‘ زہرہ کے مالک کا نام حسن صدیقی ہے ‘یہ پراپرٹی ڈیلر ہے‘ ساتھ ساتھ پرندے بیچنے کا کاروبار بھی کرتا ہے‘گزشتہ ہفتے یہ اپنی کالونی کے ہسپتال میں ایک بچی کو اٹھاکر لایا‘ بچی بے ہوش تھی‘ یہ بچی کو سٹریچر پر لٹا کر خود فرار ہوگیا‘ہسپتال انتظامیہ نے پولیس بلوائی‘بچی کے گالوں‘ پسلیوں‘ رانوںاور ٹخنوں پر زخموں کے نئے اور پرانے لاتعداد نشان تھے جن سے خون رس رہا تھا‘بچی کی حالت تشویشناک تھی‘ڈاکٹروں نے اسے آئی سی یو منتقل کیا تو پتہ چلا جسمانی کےساتھ ساتھ جنسی تشدد بھی ہوا ہے‘ بچی اسی دن شام کو دم توڑگئی‘ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ نکالی‘ حسن صدیقی کو گرفتار کیا تو ملزم نے ہوشربا انکشافات کئے‘ اس نے پولیس کو بتایا وہ گھر میں موجود نہیں تھا‘ زہرہ نے قیمتی مکاﺅ طوطوں میں سے ایک کو اڑا دیا تھا جس پر طیش میں آکر اس نے اور اس کی اہلیہ نے بچی پر تشدد کیا‘ پولیس نے شوہر کے بیان پر اس کی اہلیہ کو بھی گرفتار کرلیا‘ ملزمان کے موبائل فون کی جانچ کی گئی تو پتہ چلا ملزمان جب آٹھ سال کی بچی کو ڈنڈوں اور راڈوں سے پیٹ رہے تھے تو اس کی ویڈیو بھی بنا رہے تھے اور اس کی دلدوز چیخوں پر باقاعدہ ہنس بھی رہے تھے‘ ایک ویڈیو میں روتی بلکتی اور آہ وزاری کرتی بچی کو پرندوں کے بڑے پنجرے میں بند کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

 آپ پتھر دلی دیکھیں بیوی جب بچی کو مارتی تھی تو حسن صدیقی ویڈیو بناتا تھا اور جب حسن صدیقی بچی پر تشدد کرتا تھا تو اس کی اہلیہ ویڈیو بناتی رہتی تھی اور آپ اعدادوشمار بھی پڑھ لیں‘ مملکت خداداد میں روزانہ8 بچے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں ‘2018 ءمیں بچوں پرتشدد اور زیادتی کے3832 کیس رپورٹ ہوئے‘ 2019 ءمیں 2846 کیس سامنے آئے جن میں سے778 بچوں کو اغواءکیاگیا‘405 بچے لاپتہ ہوئے ‘ 588 بچوں سے زیادتی کی گئی‘54 فیصد ان میں بچیاں اور46 فیصد بچے تھے اور فلاحی ادارے کہتے ہیں کہ رپورٹ شدہ کیسوں کی تعداد آدھی بھی نہیں ہے بلکہ دوگنا کیس صلح صفائی‘ معافی تلافی‘ لعنت ملامت پر ختم کردےئے جاتے ہیں ےا معاشرتی مجبوریوں کے باعث رپورٹ ہی نہیں ہوتے‘ آپ حیوانیت اور سفاکیت دیکھیں کہ پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کےخلاف بھی تشدد اور زیادتی کے کیس رپورٹ ہوئے ‘گوبیمار ذہنیت رکھنے والے ایسے لوگوں کی تعداد 22کروڑ میں چند سو ہی ہوگی لیکن یہ پورے معاشرے کے دامن کو داغدار کرنے کیلئے کافی ہیں‘ یہ ایسا بدنما دھبہ ہیں جن کی وجہ سے والدین بچیوں اور بچوں کو لے کر نفسیاتی مریض بن گئے ہیں ‘بچی دو سےکنڈ کیلئے آنکھوںکے سامنے سے ہٹ جائے تو والدین کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور بچے کی آواز دو سےکنڈ تک نہ آئے تو والدین حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور بچے سکول چلے جائیں تو والدین کا سکھ اور چین بھی ساتھ لے جاتے ہیں اور بچے ٹیوشن کیلئے جائیں تو والدین کے دل کی دھڑکن ان کے واپس آنے تک بے ترتیب رہتی ہے‘ زہرہ شاہ کےساتھ ایسا کیوں ہوا‘ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ قانون موجود ہے‘ اس کے نفاذ کیلئے درجنوں ادارے موجود ہیں‘ غریب عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے افسران اور اہلکار بھی لاکھوں ہیں‘ نظام انصاف موجود ہے‘ عدالتیں چل رہی ہیں‘ حکمران زندہ ہیں‘ جج بہتیرے ہیں‘ پولیس فعال ہے‘ منبرومحراب آباد ہیں‘ وکلاءموجود ہیں‘ دفعات ہزاروں ہیں‘ تھانے بھی قائم ہیں‘ہتھکڑیاں اور حوالات بھی ہیں‘ 22کروڑ انسان بھی سانس لے رہے ہیں لیکن شاید انسانیت دم توڑ چکی ہے‘ تب ہی بے حسوں کے اس بازارکی بولی میں مکاﺅ طوطے کی قیمت ایک جیتے جاگتے انسان سے زیادہ لگتی ہے۔