برازیل

 برازیل براعظم جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے‘اس کی سرحدیں ارجنٹینا‘ بولیویا ‘ کولمبیا‘ پیراگوئے اور فرانس سے ملتی ہیں‘ 85 لاکھ 14 ہزار877 مربع کلومیٹر رقبہ ہے‘ یہ دنیا کا 5واں بڑا ملک ہے‘20کروڑ50لاکھ کی آبادی ہے‘ دنیا کا سب سے بڑا جنگل ایمازون اور سب سے بڑی ندی بھی یہاں ہے‘ ایمازون اتنابڑا جنگل ہے کہ اس کا صرف10فیصد حصہ دنےاکے سامنے آےا ہے‘ برازیل اتنا خوبصورت اور دلکش ہے کہ اسے پریوں کا دیس کہا جاتا ہے اس کی خوبصورتی دیکھ کر سیاح ششدر رہ جاتے ہیں لیکن برازیل کی خوبصورتی نہیں بلکہ اس ملک کے صدر جائر بولسنارو ہمارا موضوع ہیں‘ صدر صاحب کی ضد‘ ناسمجھی اور انا پرستی نے20کروڑ 50 لاکھ لوگوں کی زندگیاں خطرے مےںڈال دی ہےں‘16مارچ کو ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کو عالمی وباءقرار دیاتو بولسنارو نے کندھے اچکاکر طنزیہ مسکراہٹ کےساتھ میڈیا کو بتایا کہ یہ معمولی زکام ہے گھبرانا نہیں ہے‘جب ریاستوں نے لاک ڈاﺅن کا اعلان کیا تو بولسنارو نے لاک ڈاﺅن کی مخالفت کردی‘ریاستوں کے سربراہوں کو دھمکیاں تک دے ڈالیں انہیں غیر ذمہ دار قرار دے ڈالا اور ریاستوں کےخلاف باقاعدہ مہم شروع کردی‘ انہوں نے ماسک پہننے سے انکار کیا اور سماجی فاصلے کا خیال بھی نہ رکھا‘ یہ اجلاسوں میں یوں ہی منہ اٹھائے شریک ہوتے رہے‘یہ وزراءسے ہاتھ ملاتے رہے یہ ریاستوں کےخلاف احتجاجوں میں شریک ہوتے رہے‘ انہوں نے ریاستوں کے فنڈز بھی روکے اور لاک ڈاﺅن کواشرافیہ کا چونچلا کہتے رہے۔

 24اپریل تک برازیل میں وباءنے پنجے گاڑلئے اموات میں اضافہ ہوا تو صدر بولسنارونے سرکاری ویب سائٹ بند کرادی جس کےخلاف احتجاج ہوا تو ویب سائٹ کھول دی لیکن کورونا کا ڈیٹا ہٹا دیاگیا‘ صدر بولسنارو کی ناعاقبت اندیشی اور کوتاہی کی وجہ سے برازیل کورونا سے متاثرہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے اور اب حال یہ ہے کہ مردوں کو دفنانے کی جگہ کم پڑ گئی ہے اور آج چارماہ ہوگئے ہیں لیکن برازیل لاک ڈاﺅن کا فیصلہ نہ کر سکا‘ ریاستیں لاک ڈاﺅن کرنا چاہتی ہیں لیکن صدر صاحب بضد ہیں کہ لاک ڈاﺅن سے معیشت بیٹھ جائے گی حالانکہ لاک ڈاﺅن نہ کرنے سے اب تک برازیل کو 200 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے‘ کارخانے بند ہیں‘ سرکاری دفاتر ویران ہیں‘ کاروبار بند ہیں‘ سیاحت دم توڑ چکی ہے‘ عوام سڑکوں پرمر رہے ہیں‘ ہسپتال مریضوں سے بھرے ہیں‘ گھروں میں لوگ کراہ رہے ہیں‘ وینٹی لیٹرز ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے‘ دوائیاں مارکیٹ سے غائب ہےں‘ مہنگائی 22فیصد کی سطح کو چھو رہی ہے‘ اشیائے خوردونوش کی قلت ہے ‘سٹور خالی پڑے ہیں ماسک اور سینی ٹائزر ناپید ہیں‘47889 لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں‘9لاکھ 83 ہزار شہری وائرس سے متاثر ہیں‘ روزانہ اےک ہزار اموات ہو رہی ہیں‘ پورا ملک خوف وہراس کا شکار ہے ‘برازیل کے شہری ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئے ہیں اور پوری دنیا برازیل کا بائیکاٹ کر رہی ہے کیونکہ اس کی سرحدیں8 ممالک سے ملتی ہیں اور ان ممالک کو ڈر ہے کہ ان کے ہاں وائرس برازیل سے آیا ہے۔

 آپ امریکہ کو لے لیں‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برازیل کے سربراہ بولسنارو میں زیادہ فرق آپ کو محسوس نہیں ہوگا‘ ڈونلڈ ٹرمپ بھی وباءکو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے‘یہ بھی ڈبلیو ایچ او کا مذاق اڑاتے رہے‘ یہ عالمی تنظیم کے بائیکاٹ کی دھمکیاں دیتے رہے‘ فنڈز روکنے کی باتیں کرتے رہے اور آج امریکہ اےک لاکھ بےس ہزار لاشیں اٹھا کر ہلکان ہو چکا ہے‘ آپ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو لے لیں‘ یہ بھی ٹھٹھے اڑاتے رہے اور بےالیس ہزار برطانیوں کو قبرمیں پہنچا کر خود بھی موت کو قریب سے دیکھ آئے اور آخر میں آپ ہمیں دیکھ لیں ہم بھی ماسک پہننے سے انکاری ہیں‘ ہم بھی صوبوں کی خود مختاری کا رونا رو رہے ہیں‘ ہم این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کو لئے بیٹھے ہیں ‘ہم بھی کورونا وباءکو زکام کہتے رہے‘ ہم نے بھی ڈبلیو ایچ او کا کہنا نہیں مانا‘ ہم نے بھی ڈاکٹروں کی اپیلوں کا مذاق اڑایا‘لاک ڈاﺅن نہیں کیا‘ ٹرانسپورٹ نہیں روکی‘ بیرون ملک سے آنےوالے لوگوں کو نہیں روکا ‘ہم بھی بضد رہے‘ ہم بھی ناسمجھ بنے بیٹھے رہے‘ ہم نے سائنسدانوں اور ڈاکٹروں سے مشورہ نہیں کیا‘ ہم بھی من مانی کرتے رہے ‘ہم صرف امداد کی دہائیاں دیتے رہے لیکن خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے‘ ہم ٹوےٹ پر ٹوےٹ کرتے رہے‘ پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کرتے رہے‘ بیان پر بیان داغتے رہے اور عملی طور پر کچھ نہیں کیا اور آج حال یہ ہے کہ دنیا کھل رہی ہے‘ جہاز اڑانیں بھر رہے ہیں‘ریستوران اور پارکوں کی رونقیں بحال ہو رہی ہیں‘ ہسپتال خالی ہو رہے ہیں‘ دفاتر آباد ہو رہے ہیں‘ کارخانے کھل رہے ہیں‘ معیشت بحال ہونا شروع ہوگئی ہے تو ہم پشاور‘ لاہور‘کراچی اور اسلام آباد کو بند کر رہے ہیں کیونکہ ہماری حماقتوں سے گھر اور ہسپتال مریضوں سے بھرگئے ہیں‘ خوف وہراس پھیلا ہوا ہے اور دم توڑتی معیشت کی آخری سانسیں بمشکل چل رہی ہیں اور ہم وہ واحد ملک ہیں جس کی جی ڈی پی منفی ہوگئی ہے اور جس کا بال بال قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے ‘ہم اب بھی کنفیوز ہیں ‘تذبذب کا شکار ہیں اور ہم کوتاہی تسلیم نہیں کر رہے تب ہی ہم برازیل جیسے ملکوں کی صف میں آکھڑے ہوئے ہیں اور ہم اب خمیازہ بھگت رہے ہیں۔