پٹرول

 آپ کا کہنا ہے پٹرول اوڈ یزل خطے کے ممالک میں سب سے سستے ہمارے ہاں ہیں جبکہ اعدادوشمار آپ کے حساب کتاب سے یکسر مختلف ہیں‘ چین میں پٹرول فی ڈالر صرف5.9 یوآن کا ہے جبکہ وہاں ڈالر8یوآن کے برابر ہے بنگلہ دیش میں پٹرول89 ٹکہ کا ایک لیٹر آتا ہے جبکہ ڈالر84 ٹکہ کا ہے اور بھارت میں پٹرول80 روپے فی لیٹر ہے اور ایک ڈالر75 بھارتی روپے کا ہے جبکہ پاکستان میں پٹرول100روپے جبکہ ڈالر167 کا ہے اس کا مطلب ہے پٹرول کے نرخ پڑوسی ممالک میں پاکستان کے نصف ہیں یعنی آپ قوم کو گمراہ کر رہے ہیں اور یہ بھی دیکھ لیں پاکستان میں شہریوں کی فی کس آمدنی خطے کے ممالک میں سب سے کم ہے چین میں فی کس آمدنی18170 ڈالر سالانہ ہے‘ بھارت میں ہر شہری سالانہ7680 ڈالر کماتا ہے بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی5975 ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں فی کس آمدنی سب سے کم یعنی5860 ڈالر سالانہ ہے یعنی آپ جو تقابل کر رہے ہیں وہ کسی طور درست نہیں اب آپ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ دیکھ لیں حکومت نے یکم جون کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کیں حالانکہ جتنی کمی ہوئی تھی وہ عالمی منڈی کی مندی کے مقابلے میں بہت کم تھی پھر بھی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے پٹرول اور ڈیزل ذخیرہ کرلیا‘ کئی بار نوٹس لیا گیا‘ دھمکیاں بھی دی گئی حتی کہ چار بڑی آئل کمپنیوں کے مالکان کی گرفتاری کا حکم بھی دوبار جاری ہوا لیکن گرفتاری تو درکنار کوئی ان کو چھو تک نہ سکا یکم جون سے26 جون تک پٹرول پمپوں پر لمبی لمبی قطاریں لگی رہیں لیکن آئل کمپنیوں کے گوداموں سے کوئی افسر یا اہلکار تیل نہ نکال سکا حتیٰ کہ منت سماجت بھی کی گئی پھر بھی آئل مافیا ٹس سے مس نہ ہوااور26جون کو حکومت نے پٹرول26روپے 58 پیسے فی لیٹر مہنگا کردیا یہ فیصلہ اتنی عجلت میں کیاگیا کہ ملک میں تیل کی قیمتوں کو مانیٹر کرنے والے ادارے اوگرا کی سمری کاانتظار تک نہ کیا گیا اور وزارت خزانہ کے لیٹر پیڈ پر ہی دستخط کر دیئے گئے۔

 26جون سے30 جون تک آئل کمپنیاں7ارب کی اضافی کمائی کریں گی اور یہ7ارب روپے غریب شہریوں کی جیبوں سے نکلیں گے آپ فی لیٹر پٹرول کا تجزیہ کریں تو حیران رہ جائیں گے پٹرول جب74 روپے52 پیسے فی لیٹر تھا تو اس میں41 روپے حکومت پاکستان بطور ٹیکس وصول کرتی تھی‘9روپے70 پیسے فی لیٹر پر خرچ آتا تھا‘ اور صرف24 روپے فی لیٹر کی بنیادی قیمت تھی اب پٹرول 100 روپے 10پیسے فی لیٹر پر بک رہا ہے تو اس میں ٹیکس 44 روپے پچاس پیسے ہے فی لیٹر اخراجات وہی9روپے70 پیسے ہیں جبکہ فی لیٹر بنیادی قیمت24روپے سے بڑھا کر45 روپے86 پیسے کردی گئی ہے‘ آپ پرانی اور نئی قیمتوں کا تجزیہ کرلیں تو پتہ چلے گا کہ حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں صرف ساڑھے تین روپے فی لیٹر کا فائدہ ہوا ہے جبکہ تیل کمپنیوں کو22روپے فی لیٹر کا شاہی فائدہ دیاگیا ہے یہ سیدھا سادہ 90فیصد اضافہ ہے جبکہ اس دوران عالمی منڈی میں فی بیرل خام تیل کی قیمت میںصرف17فیصد اضافہ ہوا ہے اس ساری کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت کو صرف فی لیٹر ساڑھے تین روپے فائدہ ہوا جبکہ عوام کی جیب سے 300ارب روپے سالانہ نکالے جائیں گے کیونکہ پاکستان کے شہری روزانہ5 لاکھ88 ہزار بیرل تیل استعمال کرتے ہیں اور آپ یہ بھی جان کر حیران رہ جائیں گے کہ تیل فروخت نہ کرنے پر15جون کو ان چار آئل کمپنیوںکو مجموعی طور پر ایک کروڑ جرمانہ کیاگیا تھا ۔

لیکن26جون کو ان ہی کمپنیوں کو300ارب روپے کا انعام دے دیا گیا اور عالمی مارکیٹ میں فی بیرل خام تیل کی قیمت کل37 ڈالر 88 سینٹ تھی اس حساب سے پاکستان میں فی لیٹر پٹرول67 روپے کا ہونا چاہئے لیکن آپ نے قیمتیں کم کرنے کی بجائے بڑھا دیں آپ نے4 کمپنیوں کو 22 کروڑ لوگوں پر فوقیت دے دی‘ ان22 کروڑ میں سے 12کروڑ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو سر ڈھانپتے ہیں تو پاﺅں ننگے ہو جاتے ہیں اور پاﺅں چھپاتے ہیں تو چادر سر سے سرک جاتی ہے اور2011میں پٹرول10روپے لیٹر مہنگا ہوا تو آپ نے سول نافرمانی تحریک کی دھمکی دے ڈالی تھی2018 میں5روپے قیمت بڑھی تو آپ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور اب آپ نے بیک جنبش قلم25 روپے 58 پیسے بڑھا دیئے تو خطے کے ممالک کی غلط مثالیں دے رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ100روپے فی لیٹر ہندوستان سے سستا ہے۔ جناب عالیٰ! روپے کی بے قدری‘ معیشت کی تنزلی‘مہنگائی کا طوفان کورونا اور ٹڈی دل کا عذاب‘ بڑھتی ناامیدی‘ سٹاک ایکسچینج کی مندی اور بڑھتی غربت اور بیروزگاری جھیلنے والوں کو کم از کم خطے میں کم قیمت کے لالی پاپ پر تو نہ بہلائیں۔