بچوں کےخلاف گھریلو تشدد کی ایک اور دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی ہے جس میں ایک کم عمر لڑکی آٹھ سالہ ملازمہ زہرہ کو اس قدر مارا پیٹا گیا کہ وہ بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گئی‘ جرم یہ تھا کہ گھر کے کام کاج کے دوران اس بچی سے پرندوں کے پنجرے کا دروازہ کھل گیا‘ جس سے مبینہ قیمتی پرندے اڑ گئے چونکہ آقا کی نظر میں کسی پرندے کی قیمت انسانی سے زیادہ تھی‘ اسلئے اس نے انسانی جان کی پرواہ نہیں کی‘ دن دیہاڑے ہونےوالا یہ جرم بحریہ ٹاو¿ن‘ روالپنڈی جیسے ملک کی جدید و مہنگی ترین رہائشی بستی میں رونما ہوا‘ جہاں رہنے والوں کی اکثریت مالی وسائل و خاص سیاسی اثروسوخ رکھنے کی حامل ہوتی ہے۔ امیروں کی بستی میں غریبوں سے اس قسم کے سلوک کی یہ ایسی پہلی واردات نہیں کہ اہل پاکستان کا ضمیر جاگ اٹھے بلکہ اس کا جنازہ پہلے ہی اٹھ چکا ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان میں ہمیشہ غریب ملازمین کےخلاف یوں تواتر سے جرائم کا ارتکاب نہ ہوتا اور نہ ہی آئے روز ان مجبور و لاچار ملازمین کا استحصال ہوتا‘ایک طرف غربت و بے بسی ہے اور دوسری طرف اقتدار و اختیار جیسے غرور نے اہل اقتدار و اہل ثروت کو اندھا بنا دیا ہے‘ معلوم حقیقت ہے کہ قانون نافذ کرنےوالے اداروں کا ملازمین پر تشدد کے معاملے میں رویہ ہمیشہ امتیازی ہوتا ہے اور ا یسے مجرموں کی ہر ممکن حد سے زیادہ مدد کرنے کےلئے پولیس اور وکیل اپنے موکل کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں‘جہاں ریاست بے رحم ہو‘ وہاں خواص کی اکثریت سے ہمدرد ہونے کی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ کل کی طرح آج بھی ریاست ان غربا کےساتھ کھڑی دکھائی نہیں دے رہی‘ جن کے پاس سوائے اس بات کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ محنت مشقت کےلئے اپنے کمسن پھول جیسے بچوں کی غلامی قبول کریں‘ اگر پاکستان میں حسب آئین سماجی تحفظ کا نظام ہوتا تو کسی غریب کو اپنے بچے چند ہزار ماہانہ کے عوض فروخت نہ کرنے پڑتے۔ بچوں کےخلاف جرائم کی ایسی لاتعداد کہانیاں شمار سے زیادہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہر مرتبہ حکومت سے عوام اور عوام سے خواص تک ان واقعات کی چند روزہ مذمت کے بعد حالات معمول پر آ جاتے ہیں کیونکہ فیصلہ سازوں سے لیکر قانون نافذ کرنےوالے اہلکاروں تک کسی کا بھی دلی و خونی تعلق غربیوں سے نہیں ہوتا جن کےلئے ہر دن زندگی کا مطلب ہر دن موت ہے!
یہ مرحلہ فکر ذرائع ابلاغ کے کردار پر بھی نظر ڈالنے کا ہے‘ جہاں ہر شب گیارہ بجے کے بعد جرائم نامے نشر کئے جاتے ہیں‘ جرائم کی ڈرامائی تشکیل ہوتی ہے۔ بہترین تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرنےوالے لکھاریوں اور حقیقت کا گماں ہونے والی اداکاری کرنے والوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جبکہ پس پردہ موسیقی‘ فلمبندی‘ صوتی اثرات اور کرداروں کے میک اپ کے ذریعے کہانی کو زیادہ دلچسپ انداز میں پیش کرنے کی مہارت رکھنے والے مرچ مصالحوں اور خالص گھی سے تڑکہ لگانا نہیں بھولتے‘ ذرائع ابلاغ کی ترجیحات کا نتیجہ عوامی سردمہری کی صورت ظاہر ہوا ہے کہ اب معاشرے میں جرم کو جرم نہیں سمجھا جاتا‘ نہ ہی اس سے اصلاح کی تحریک چلتی ہے بلکہ جرائم کو بطور کہانی ٹیلی ویژن سے اخبارت و ریڈیو کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے اور انہیں دیکھنے‘ پڑھنے اور سننے والے اس سے محظوظ ہوتے ہیں‘اعدادوشمار کے مطابق ایسی کہانیاں زیادہ مقبول ہوتی ہیں‘ جس میں خواتین کو جسمانی کےساتھ جنسی تشدد کا بنایا جاتا ہو اور ایسی جرائم کہانیوں کی دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ اِن کے کرداروں کا تعلق ہمیشہ غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے۔ آج تک کسی سرمایہ دار خاندان میں پنپنے والی کہانیوں کی کھوج نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کا سرعام بیان ہوتا ہے۔ غریبوں کے خلاف جرائم پولیس کو رپورٹ ہونے کے بعد ذرائع ابلاغ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور یہاں سے ناانصافی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے‘ایسے نشرئیوں اور اشاعتوں کا حاصل وصول یہ ہے کہ عام آدمی کی عزت‘ جان و مال اور آبرو جو پہلے ہی غیرمحفوظ تھی اب آبرومندانہ بھی نہیں رہی‘ مزدوروں‘ محنت کشوں اور بچوں کے حقوق تو بہت دور کی بات پاکستان میں تو اس انسان کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا جو غریب ہو۔ ٹوئیٹر پر ’انصاف برائے زہر نامی مہم کے ذریعے پوری دنیا سے پاکستان میں سرمایہ داروں کی من مانی اور قانون کی حکمرانی کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے‘ اظہار خیال کرنےوالوں کی سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ سماجی و سیاسی انصاف کی فراہمی اور ایک نئے پاکستان کا وعدہ کرنے والے جمہوری انقلاب کے بانی بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح مصلحت کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟