شجرکاری ‘توقعات اورخدشات

 بلین ٹری سونامی تحریک انصاف حکومت کے ان منصوبوں میں سے ایک ہے جس کی بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی ہے‘شجرکاری کے اس منصوبے کا آغاز 2014میں خیبر پختونخوا سے ہوا تھا جس کے تحت خیبر پختونخوا میں شامل ہونےوالے سات قبائلی اضلاع سمیت صوبہ بھر میں ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیاگیا۔ پرویز خٹک کی قیادت میں صوبائی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ایک ارب سے زیادہ درخت لگانے کا دعویٰ کیا‘ان میں حکومت کی طرف سے منصوبہ بندی کے تحت لگائے گئے غیر پھلدار پودوں کے علاوہ خود رو پودے اور جہازوں کے ذریعے پہاڑی علاقوں میں گرائے جانےوالے بیج بھی شامل ہیں‘صوبے کے بعض علاقوں میں بلین ٹری منصوبے کے تحت لگائے گئے پودے اب تناور درخت بن چکے ہیں تاہم بلین ٹری منصوبے کے پچاس فیصد پودے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ چکے ہیں یا جانوروں کی خوراک بن چکے ہیں‘شجرکاری کے اس میگا منصوبے کے کچھ مثبت اثرات موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں نظر بھی آنے لگے ہیں‘پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا کےساتھ مرکز میں بھی حکومت بنانے کا مینڈیٹ ملا تو اس نے بلین ٹری سونامی منصوبے کو توسیع دیتے ہوئے پورے ملک میں شجرکاری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی پانچ سالہ مدت کے اندر دس ارب پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

اگر حکومت نے اپنی آئینی مدت کے اندر مقرر کردہ ہدف کا پچاس فیصد بھی حاصل کرلیاتو یہ غیر معمولی کامیابی ہوگی ۔ہمارے ملک میں جنگلات صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں کسی بھی ملک میں جنگلات کےلئے جتنا رقبہ متعین ہے پاکستان میں اس سے کہیں کم رقبے پر جنگلات موجود ہیںبلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت وفاقی حکومت نے تین لاکھ پچاس ہزار ہیکٹر رقبے پر جنگلات اگانے کی مہم شروع کی ہے تاکہ موسمی تغیرات سے ہونےوالے نقصانات سے بچا جاسکے‘بدقسمتی سے پاکستان میں جنگلات کے قیمتی اثاثے کو بھی دیگر قومی وسائل کی طرح بے دردی سے لوٹا گیا‘اور اس لوٹ مار میں جنگلات کے تحفظ کےلئے قائم سرکاری اداروں کا بڑا ہاتھ رہا ہے‘خیبر پختونخوا کے جن علاقوں میں جنگلات پائے جاتے ہیں وہاں توانائی کے متبادل ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سوختنی مقاصد کےلئے کاٹا جاتا ہے ۔ونڈ فال کی آڑ میں سالانہ اربوں روپے کے جنگلات بےدردی سے کاٹ کر سمگل کئے جاتے ہیں چترال‘ سوات‘ دیر ‘ کوہستان ‘ مانسہرہ اور ایبٹ آباد سے دیار‘ شیشم‘بیار اور دوسری قیمتی لکڑی لاہور اور کراچی تک سمگل کی جاتی ہے‘ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن میں جنگلات کی سرکاری سرپرستی میں غیر قانونی کٹائی بدستور جاری ہے جس کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ رقبے پر جنگلات چٹیل پہاڑوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

اس وجہ سے دونوں ڈویژنوں میں گذشتہ چند سالوں کے دوران تباہ کن سیلاب سے کئی قیمتی جانیں ضائع اور اربوں کی املاک تباہ ہوچکی ہیں‘لوئرچترال میں ٹاﺅن ‘ دنین‘ جوغور‘ بروز‘ چمرکن‘ ایون وادی‘ شیشی کوہ‘ دامیل‘ ارسون‘ ارندو اور جنجریت کوہ کے علاقوں میں گھنے جنگلات موجود ہیں‘تاہم گذشتہ کئی عشروں سے سرکاری سرپرستی میں ان کی غیر قانونی کٹائی جاری ہے‘المیہ یہ ہے کہ جنگلات کی تباہی میں ٹمبرمافیا کےساتھ مقامی لوگ اور سرکاری اہلکار بھی ملوث ہیں جن کا بنیادی کام جنگلات کا تحفظ ہے اور انہیں رائلٹی کی مد میں بھی لاکھوں کروڑوں روپے ملتے ہیں‘جنگلات کی تباہی کے باعث نہ صرف گلیشئر پگھلنے لگے ہیں بلکہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے تباہ کن سیلاب آتے رہتے ہیں۔2010اور پھر2014 میں سیلاب سے چترال کے کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے‘ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ کھڑی فصلیں اور باغات کے علاوہ سکولوں ‘ہسپتالوں‘ مدارس اور عبادت خانوں سمیت سینکڑوں عمارتیں بھی ملیامیٹ ہوگئیں اور سیلاب متاثرین کی اکثریت ابھی تک دردر کی ٹھوکریں کھانے اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔وزیراعظم عمران خان اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان اگر بلین ٹری سونامی منصوبے کو اس کے اہداف تک پہنچاناچاہتے ہیں تو انہیں جنگلات کے تحفظ میں ذاتی دلچسپی لینا ہوگی ‘غفلت کامرتکب خواہ صوبائی وزیر ہو‘ سیکرٹری‘ ڈویژنل ‘ضلعی یا تحصیل سطح کا کوئی سرکاری اہلکار ہو یا فارسٹر‘گارڈ یا رینجرہو۔ وہ قومی مجرم ہے اور قومی مجرم کو قرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کی زندگی پر اثرانداز ہونے والے اس منصوبے کو کامیابی کےساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔