سمندرپارپاکستانیوں کاالمیہ

 خدا خدا کر کے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی مداخلت پر وفاقی حکومت نے سعودی عرب میں کورونا سے جاںبحق ہونےوالے پاکستانی باشندوں کی میتیں واپس لانے کےلئے انتظامات کرلئے ہیں اور پہلا طیارہ آٹھ میتیں لے کر پہنچ بھی گیاہے لیکن یہاں تک پہنچنے کےلئے ان بے بس اور مجبور اہل وطن کو پردیس میں جن کٹھن مراحل سے گزرناپڑا اورتاحال گزررہے ہیں وہ تاریخ کاایک المناک اورسیاہ باب بن چکاہے ‘دیار غیر میں کام کرنےوالے یہ اہل وطن ہر مصیبت اور ضرورت کے وقت سب سے پہلے اورسب سے زیادہ اپنے وطن کے کا م آئے ہیں‘ نواز شریف کی قرض اتارو ملک سنوار و مہم سے لے کر ڈیم اور اب کورونا فنڈ کے معاملہ تک ہر مرحلہ پر ہمارے یہ مسافر بھائی سب سے زیادہ اخلاص کےساتھ آگے آکر حکومتوں کی جھولیاں بھرتے رہے ہیں ‘ادھر حکومت نے اپیل کی ادھر اگلے ہی روز سمندر پارپاکستانیوں کاجذبہ حب الوطنی پھڑک اٹھا اور بینکو ں کارخ کر کے غیر ملکی زرمبادلہ ملکی خزانے میں جمع کرانے میں جت گئے ‘حیرت کامقام تویہ ہے کہ اس دوڑ میں بیرون ملک پاکستانی سرمایہ داروں وصنعتکاروں سے لے کر محنت کشوں تک سب ایک دوسر ے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے رہے اگر بات محنت کشوں کی ہو تو جس مشکل سے ہمارے یہ بھائی بیرون ملک محنت مزدوری کرکے پیسے کماتے ہیں اورجس طرح اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اور ایک ایک کمرے میں درجن بھر اکھٹا رہ کر وقت گزارتے ہیں۔

 اگر کبھی ان حقائق پر نگاہ دوڑائی جائے تو دل یقیناخون کے آنسو رونے لگے گا مگر اس کے باوجود اپنے بچوں کاحصہ کاٹ کر اپنے وطن کو دینے والے یہ محنت کش کورونا اور لاک ڈاﺅن کے بعد سے پیداہونےوالی صورتحال میں جس طرح حکمرانوں کی طرف سے نظر انداز کئے گئے اس پر پالیسی سازوں کی بے حسی پر افسوس اور مذمت کے الفاظ بھی کم ہی دکھائی دیتے ہیں‘ ایک اندازے کے مطابق بیرون ملک موجود پاکستانی باشندوں کی تعداد نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے کہاجاتاہے کہ ان میں پختون محنت کشوں کی تعداد تیس لاکھ تک ہے ‘اسوقت پاکستانیوں کی سب سے زیادہ تعداد مشرق وسطیٰ میں موجود ہے‘ مختلف رپورٹوں کے مطابق ان کی تعداد سینتالیس لاکھ بنتی ہے‘ دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے جہاں بارہ لاکھ سے زائدپاکستانی ہیں ‘مشرق وسطیٰ کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب میں ہیں جن کی تعداد 26لاکھ بتائی جاتی ہے پھر یو اے ای میں پندرہ لاکھ پاکستانی محنت مزدور ی میں مصروف ہیں ‘اومان میں دو لاکھ 31ہزار ‘قطر میں ایک لاکھ 25ہزار‘بحرین جیسے چھوٹے سے ملک میں بھی ایک لاکھ سترہ ہزار اور کویت میں ایک لاکھ نو ہزار پاکستانی مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں یہ تمام پاکستانی ہرسال اربوں ڈالرکاقیمتی زرمبادلہ پاکستان بھجوا کر ہماری معیشت کی رگوں میں تازہ اور ضروری خون شامل کرانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں‘ ۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2007-08میں بیرون ملک پاکستانی باشندوں کی طرف سے 4.7ارب ڈالر کازرمبادلہ بھجوایا گیاتھا جو ان دنوں 670ارب روپے بنتے تھے جبکہ دس سال بعد یعنی 2017-18میں سمندرپار پاکستانیوں کی طرف سے پندرہ ارب ڈالر کاخطیر زرمبادلہ بھجوایا گیا جو کم وبیش 2137ارب روپے بنتے ہیں‘یہاں یہ امر باعث حیرت ومسرت ہے کہ دنیابھر میں لاک ڈاﺅن کے باعث روزگار سے محرومی کے باوجود پاکستانیوں نے ماہ اپریل کے دوران ایک ارب 79کروڑ ڈالر کازرمبادلہ بھجوایا جو گذشتہ سال کے ماہ اپریل کے مقابلہ میں پھربھی دس لاکھ ڈالر زیادہ ہے اسی طرح جولائی تا اپریل ہمارے ان جفاکش اور محنتی بھائیوں کی جانب سے 18ارب 80کروڑ ڈالر کازرمبادلہ بھجوایا گیا جبکہ گذشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں ترسیلات زر کی مالیت 17ارب 80کروڑ ڈالر تھی یوں ان نامساعد حالات میں بھی ہمارے ان بھائیوں نے ملکی معیشت میں تازہ خون شامل کرانے کاسلسلہ جاری ر کھا اور گذشتہ سا ل کے مقابلہ میں تاحال ایک ارب ڈالر یعنی 5.5فیصد زیادہ زرمبادلہ بھجوایا مگر اس کے باوجود جب انہوں نے رمضان اور عید کےلئے وطن واپس آنا چاہاتو دفتر خارجہ ‘وزارت سمندرپاکستانیز اور ہمارے سفارتخانوں نے جس طریقے سے ان کو نظر اندازکیا اس نے آج بہت بڑے المیے کو جنم دیاہے جسکاثبوت سعودی عرب میں کورونا سے جاں بحق ان بدقسمت پاکستانیوں کی بے گوروکفن پڑی ہوئی لاشیں ہیں جب سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائر ل ہوئیں تو حکومت کوہوش آیا ہم نے اپنے ان بھائیوں کےساتھ جو سلوک کیا بحیثیت پاکستانی میں خود کو سب سے زیادہ شرمسا ر محسوس کرتاہوں‘ کاش ہماری حکومت کو پہلے ہوش آتا آنے والے مہنگے ٹکٹ کے ذریعہ اس طرح نہ لٹتے اور نہ ہی لاشوں کی واپسی کےلئے یوں خوار ہونا پڑتا‘اب بھی وقت ہے جو محنت کش واپس آناچاہتے ہیں ان کےلئے زیادہ سے زیادہ پروازوں کابندوبست کرکے کم سے کم قیمت پر ٹکٹ فراہم کرنے کابندوبست کیاجائے اس ضمن میں بھی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو ہی اپنا کردا رادا کرناہوگا کیونکہ بہت بڑی تعداد میں پختون محنت کش وطن واپسی کے خواہشمند ہیں ۔