خیبرپختونخوا کے تمام سرکاری دفاتر میں ماسک کے استعمال کو لازم قرار دےدیا گیا ہے‘ امید ہے کہ اس پابندی کا مکمل اطلاق بھی دیکھنے میں آئے گا جو سرکاری دفاتر اور ان سے رجوع کرنےوالوں پر یکساں عائد ہونے کےساتھ قومی ذمہ داری بھی ہے کیونکہ طبی ماہرین کے مطابق ماسک پہننے سے کورونا وائرس کے کسی ایک معلوم یا مشتبہ مریض سے بیماری کا باعث بننے والے جرثومے کا دوسرے صحت مند شخص میں منتقلی کا امکان بڑی حد تک کم ہو جاتا ہے‘ ماسک پہننا اور ماسک پہنے رہنا دو الگ الگ باتیں ہیں‘ جن کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے‘حکومتی سطح پر ہوش کے ناخن لینے کا درپردہ محرک کورونا وبا سے متاثرین کی تعداد اور اس پراسرار وبا سے اموات میں غیرمعمولی اضافے کی شرح ہے‘ خیبرپختونخوا میں کسی ایک دن پانچ سو سے زیادہ کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ اور 21 اموات اپنی جگہ باعث تشویش ہیں کہ بری خبریں ملنے کا سلسلہ جاری ہے‘پبلک مقامات پر لازماً ماسک پہننے سے متعلق پابندی کا فیصلہ نیا نہیں۔ صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس میں بھی اسی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ مذکورہ اہم اجلاس کی صدارت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کی تھی اور اس میں شریک صوبائی وزرا تیمور سلیم جھگڑا‘ شوکت یوسفزئی‘ مشیر اجمل وزیر‘ کور کمانڈر پشاور لےفٹےننٹ جنرل نعمان محمود‘ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز‘ صوبائی پولیس سربراہ ثنا اللہ عباسی اور دیگر اعلیٰ سول و فوجی حکام نے جن دیگر فیصلوں پر اتفاق کیا تھا‘ان میں سرفہرست لازمی طور پر ماسک پہننا ہی تھا لیکن اسکے بعد وہی ہوا جو حسب معمول جاری تھا کہ پبلک مقامات سے لیکر سرکاری دفاتر تک ماسک پہننے کی پابندی پر 100 فیصد عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آیا‘اصولی طور پر پچیس اپریل دوہزاربیس کے بعد ہر سرکاری دفتر اور ہر سرکاری تقریب میں ماسک کی پابندی دیکھنے میں آنی چاہئے تھی لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو فیصلہ سازی کے مراحل اور ان کے اطلاق میں پائے جانےوالے فاصلے بھی ختم ہونے چاہئےں۔
کورونا وائرس سے متعلق عوامی سطح پر پائی جانےوالی غلط فہمیاں یکساں بڑا خطرہ ہیں اور جب تک عوام کے ذہنوں میں کورونا وبا سے متعلق خدشات‘ تحفظات اور ایسے گمراہ کن تصورات موجود رہیں گے کہ یہ وبا مصنوعی ہے اور اعدادوشمار اور پیش کئے جانےوالے حقائق کا حقیقت سے تعلق نہیںتو اسوقت تک عام آدمی اور خواص کی اکثریت کو ماسک پہننے کی صورت احتیاطی تدبیر پر خاطرخواہ عمل درآمد کروانا ممکن نہیں ہوگا۔ کورونا کےخلاف حکومت کی سوچ اور عوام کی اکثریت کے خیالات ایک جیسے نہیں اور یہی وجہ ہے کہ صرف ناخواندہ اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی جانب ہی سے سوالات نہیں پوچھے جا رہے بلکہ اچھے خاصے اور بظاہر مہذب و تعلیم یافتہ دکھائی دینے والے حلقے بھی اس غیرمعقول رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا وبا فطری نہیں بلکہ حیاتیاتی ہتھیار اور عالمی طاقتوں کی ساختہ و دانستہ کوشش ہے‘کورونا مسلمانوں کو اجتماعی عبادات سے الگ کرنے کی عالمی سازش کا حصہ ہے‘ کورونا کی آڑ میں عالمی معاشی نظام اور اقتصادیات کو قابو کیا جائے گا‘ ایسے بہت سے دیگر تصورات بھی سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں‘ جن کی وضاحت‘ غلط فہمیاں پھیلانے کی روک تھام اور سائنسی و تکنیکی انداز سے جوابی حکمت عملی بھی وضع ہونی چاہئے کیونکہ فیصلہ سازوں کی طرح عام آدمی کا نقطہ نظر بھی اہمیت رکھتا ہے جسکی اصلاح کو ضروری سمجھنا چاہئے اس سلسلے میں حکومت کو جملہ ذرائع ابلاغ کےلئے ایک جیسی نہیں بلکہ الگ الگ حکمت عملیاں وضع کرنا ہوں گی کیونکہ کورونا وبا پھیلنے اور پھیلانے والے درحقیقت سادگی کم علمی یا لاعلمی‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔قابل افسوس ہے کہ ماسک کا استعمال سب کےلئے ضروری بیان کرنےوالے بھی اسے لازمی نہیں سمجھ رہے۔
یہی وجہ ہے کہ بازاروں میں 80فیصد سے زیادہ لوگ بنا ماسک پہنے دکھائی دیتے ہیں‘اس لاقانونیت اور غیرذمہ دارانہ طرز عمل کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص کی مالی سکت بیس سے پچاس روپے والا ماسک خریدنے کی نہیں‘ اگر حکومت مفت ماسک فراہم کرے اور ہر سرکاری دفتر یا نجی کاروباری ادارے کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے ہاں آنےوالوں کو تاحکم ثانی ماسک فراہم کریں گے تو اس سے ماسک پہننے والوں کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرکاری و نجی علاج گاہوں اور ان کے آس پاس ادویات فروشوں اور تجزیہ گاہوںمیں بھی ماسک کا استعمال دیکھنے میں نہیں آ رہا جبکہ ان مقامات پر ماسک پہننا سب سے سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے‘حالات نازک ہیں‘ قومی و صوبائی قیادت کا فرض بنتا ہے کہ وہ غیرضروری مہم جوئی کی بجائے احتیاط سے زیادہ محتاط طرز زندگی کا مظاہرہ کریں۔