حکومت نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریٹیلرز کو زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول میں پیٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ وزیر توانائی اور پیٹرولیم عمر ایوب نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'چند آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور ریٹیلرز غیرقانونی منافع کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی مصنوعی قلت پیدا کررہے ہیں'۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کمپنیوں اور ڈیلرز کو بے نقاب کرنے اور ریگیولیٹرز اور صوبائی حکومتوں کی مدد سے ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر نے اعلان کیا کہ 'ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں گے' اور دعویٰ کیا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دوسری جانب آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے آئل کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مصنوعی اضافے کے لیے بظاہر مل کر اور غیر مسابقتی انداز میں قیمت مقرر کی گئی ہے۔
چند آئل کمپنیوں نے پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل آف آئل کو غیردانش مندانہ فیصلوں کے ذریعے صورت حال کو بگاڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ حکومت نے پہلے تیل کی درآمد بند کردی اور متعدد منظور نظر کمپنیوں کے لیے شیڈول تبدیل کردیا۔ پیٹرولیم ڈویژن سے جاری ایک بیان میں بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں پیٹرولیم اور ڈیزل کا مناسب اسٹاک موجود ہے اور شہریوں کو افراتفری میں خریداری سے گریز کرنا چاہیے۔
بیان میں کہا گیا کہ 'پیٹرولیم ڈویژن واضح طور پر آگاہ کر رہا ہے کہ ملک میں پیٹرول کی مناسب مقدار موجود ہے'۔ پیٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ ماہانہ ضروریات کو پوری کرنے کے لیے ریفائنریز اور طے شدہ منصوبے کے تحت درآمد شیڈول میں ہے۔ پیٹرول کی قلت کے تاثر پر وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملک میں 2 لاکھ 72 ہزار ٹن پیٹرول اور 3 لاکھ 76 ہزار ڈیزل کا ذخیرہ دستیاب ہے جو بالترتیب 12 اور 17 دنوں کے لیے کافی ہے۔
دستاویزات میں درج تفصیلات میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر میں مصنوعات کی دستیابی کا وسیع خلا ہے اور بعض علاقوں میں فراہمی کی صورت حال پیچیدہ ہے جبکہ کئی ریٹیل اسٹیشنز مکمل طور پر بند ہیں اور چند او ایم سی کے ریٹیلرز بالکل خشک ہوچکے ہیں۔ پنجاب میں 20 روز کے لیے مطلوبہ ایک لاکھ 59 ہزار ٹن کے مقابلے میں اوسط 73 ہزار ٹن پیٹرول صرف چار روز کے لیے موجود ہے، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں صرف تین روز کے لیے پیٹرول کا ذخیرہ ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں 5 روز کا ذخیرہ موجود ہے۔ او ایم سی کا مجموعی ذخیرہ بلوچستان میں 2 ہزار ٹن، گلگت بلتستان میں 440 ٹن او کے پی میں 12 ہزار ٹن ہے۔
اسی طرح ڈیزل کا ذخیرہ پنجاب، کے پی اور گلگت میں صرف 4 روز کے لیے کافی ہے، پنجاب میں 94 ہزار ٹن ہے جبکہ صوبے میں جون میں روزانہ کی اوسط طلب 24 ہزار ٹن ہے، کے پی میں ڈیزل کا مجموعی ذخیرہ 18 ہزار ٹن اور گلگلت بلتستان میں 994 ٹن ہے جو دونوں صوبوں میں صرف چار روز کے لیے کافی ہے، سندھ میں 71 ہزار ٹن اور بلوچستان میں 1272 ٹن ڈیزل کا ذخیرہ ہے جو 12 روز کے لیے کافی ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن کے عہدیداروں نے کہا کہ شیل اور ٹوٹل پارکو کے پاس کم ذخیرہ ہے، 'یہ بدقسمتی ہے کہ چند او ایم سی او ان کے ڈیلرز نے زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے یہ طریقہ اپنایا ہے، جو عام شہریوں کے لیے قلت کا باعث بن رہا ہے اور صارفین کی زندگیوں پر منفی اثر ڈال رہا ہے'۔
وزارت پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم ڈویژن، اوگرا، مسابقتی کمیشن آف پاکستان اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سمیت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر حالات کو معمول پر لانے کے لیے مناسب کارروائی کی جارہی ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ تمام او ایم سیز سے رابطے میں ہیں اور ان میں سے اکثر کے پاس کمی نہیں ہے، 'شیل اور ٹوٹل پارکو کے پاس کم ذخیرہ ہے لیکن 8 جون سے 10 جون تک ان کی اضافی درآمد بھی پہنچ جائے گی جس کے بعد ان کا ذخیرہ بھی بڑھ جائے گا'۔
تمام چیف سیکریٹریز کو خطوط لکھے گئے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی دستیابی کو یقینی بنانے، خود جا کر جائزہ لینے اور ریٹیلرز سے ذخیروں کی تصدیق کرکے وفاقی حکومت کو آگاہ کرنے کے لیے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کریں۔ صوبوں کو بھی کہا گیا کہ مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ملوث پمپس اور ڈیلرز کے خلاف منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے متعلق 1977 کے ایکٹ کے مطابق کارروائی کریں۔