پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک ایسے مرحلہ پرقائم ہوئی تھی کہ جب فاٹاکے انضمام کافیصلہ کرلیاگیاتھا اوراب اس پر فوری عملدر آمد کامسئلہ باقی تھا‘ اس سلسلہ میں بہت سی رکاوٹیں سامنے آرہی تھیں‘ کئی حلقوں کی طرف سے مخالفت کی جارہی تھی،قانون سازی کے کئی ایک مراحل باقی تھے‘ عملی اقدامات کیلئے فوری کوششیں کی جانی تھیں اورسب سے بڑھ کران سب کے لئے اربوں کے اضافی فنڈزبھی درکار تھے جب محمود خان صوبہ کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے اس حوالہ سے وقت ضائع کئے بغیر عملی اقدامات کے لئے سٹریٹجی بنانی شروع کردی‘ پہلے مرحلہ میں تمام صوبائی محکموں کو قبائلی اضلاع تک توسیع دیتے ہوئے فاٹاسیکرٹریٹ کو عملاً قصہ پارینہ بنانے میں کامیابی حاصل کی گئی‘ بعدازاں علاقہ کی مشکلات اور موجودہ ضروریات کے تناظرمیں دس سالہ پلان اور ساتھ ہی فوری ترقیاتی اقدامات کے لئے جامع سفارشات مرتب کرنے کے لئے تمام صوبائی وزراء کو علاقہ کے دورو ں کی ہدایات جاری کی گئیں جس کے بعد سے صوبائی وزراء نے قبائلی اضلاع کے دوروں کاسلسلہ تیز کردیا جس کامقصد واضح ہے کہ ایک طرف علاقہ کی اونر شپ لی جائے اور مقامی آبادی کو یہ یقین دلایاجائے کہ اب ان کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششوں کاآغازہونے والاہے‘ دوسر ا تمام متعلقہ صوبائی وزراء کو خود موقع پر جاکر اب یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ کس علاقہ کی کیاضروریات ہیں اور فور ی اقدامات کے طور پر کیاکیاجاسکتاہے‘ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھی قبائلی اضلاع کے دوروں کاسلسلہ شروع کردیا۔
پہلے مرحلہ میں دونوں نے وزیر ستان جاکر قبائلی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی بعد ازاں مہمند اورباجوڑکادورہ بھی کیاجبکہ دیگرعلاقوں کے دورے بھی کئے اگرقبائلی اضلاع کی تعمیر وترقی کی بات کی جائے تو اس سلسلہ میں خوش آئند امریہ ہے کہ وفاق اور صوبہ نہ صرف ایک پیچ پر ہیں بلکہ مکمل سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں عمران خان ہوں یامحمود خان‘دونوں نے ہی حلف اٹھانے کے ساتھ ہی قبائلی اضلاع کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانے کے لئے فوری اورتیز رفتار اقدامات کاعندیہ دیا اور نہ صرف عندیہ دیا بلکہ اس پر عملد رآمد بھی جاری رکھا‘ اس سلسلہ میں سب سے کٹھن اور مشکل مرحلہ علاقہ میں پولیس اورعدلیہ کے نظام کوتوسیع دینے کاتھا کیونکہ روایتی مراعات یافتہ طبقے کے ساتھ بیوروکریسی کے بعض کل پرزے بھی اس کی شدیدمخالفت میں مصروف تھے‘ ان کی طرف سے مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی جارہی تھیں تاکہ سابقہ استحصالی نظام مزید کچھ عرصہ ان کاپیٹ بھر سکے‘مگراس حوالہ سے موجود ہ حکومت نے بروقت حالات کاادراک کرتے ہوئے فوری اقدامات جاری رکھے پہلے مرحلہ میں عدالتیں قائم کی گئیں بعد ازاں مقامی لیویز اورخاصہ دارفورس کو پولیس میں ضم کردیاگیا رواں بجٹ میں قبائلی اضلاع کے لئے ریکارڈ رقم رکھی گئی تھی اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ رواں مالی سال کے دوران قبائلی اضلا ع میں ترقیاتی کاموں پر اب تک 21ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں حکومت کاکہناہے کہ قبائلی اضلاع کی ترقی اس کی اولین ترجیح ہے اور ان کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابرلانے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کئے جارہے ہیں رواں مالی سال کے دوران ان علاقوں کے لئے ریکارڈ 83ارب روپے رکھے گئے تھے جس میں سے چوبیس ارب روپے قبائلی اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام جبکہ 59ارب روپے دس سالہ منصوبہ یعنی اے آئی پی کے تحت مختص کئے گئے ہیں حکومتی ذرائع کے مطابق ان میں سے اب تک 38ارب روپے جاری کئے جاچکے ہیں‘ جاری شدہ رقم میں اب تک عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جاری ترقیاتی منصوبوں پر 21ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں جو جاری کردہ فنڈز کا55فیصد بنتے ہیں‘ جس میں سات ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام اورچودہ ارب روپے دس سالہ پروگرام کے تحت خرچ کئے گئے ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق باقی ماندہ جاری کردہ فنڈز کے برابر ترقیاتی کام مکمل ہوچکے ہیں اور مطلوبہ رقم اس مہینے کے آخر تک خرچ کردی جائے گی‘ اگر سیکٹر وائز جائزہ لیا جائے تو اے ڈی پی کے تحت چودہ ارب جاری ہوئے ہیں جن میں سے پچاس فیصد خرچ کئے جاچکے ہیں‘ سڑکوں کی تعمیر کے لئے 3.3ارب جاری ہوئے تھے‘جن میں سے 1.9ار ب روپے خرچ ہوچکے ہیں‘صحت کے لئے جاری کردہ 1.2ارب روپے میں سے 61کروڑ،تعلیم کیلئے 1.6ارب میں سے 87کروڑ روپے،زراعت کے لئے جاری کردہ 1.1ارب روپے میں سے چھپن کروڑ،تعمیر ات کے لئے جاری کردہ 1.1ارب روپے میں سے ساٹھ کروڑ ستر لاکھ روپے،آبپاشی کے منصوبوں کے لئے1.1ارب جاری ہوئے جن میں سے باسٹھ کروڑ پچاس لاکھ روپے جبکہ صاف پانی کے منصوبوں کے لئے 71کروڑ 70لاکھ میں سے انتالیس کروڑ دس لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں‘ سرکاری ذرائع کے مطابق توانائی کے شعبہ کے لئے اکیس کروڑ بیس لاکھ روپے جاری ہوئے جن میں سے دس کروڑ بیس لاکھ روپے خرچ ہوئے‘ایف ڈی اے کے لئے تریالیس کروڑ چالیس لاکھ میں سے اٹھارہ کروڑ نوے لاکھ،جنگلات کے لئے چھیالیس کروڑ میں سے چوبیس کروڑ چالیس لاکھ،کھیل وسیاحت کے لئے اٹھائیس کروڑ نوے لاکھ میں سے چودہ کروڑ چالیس لاکھ روپے مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے چالیس کروڑ نوے لاکھ میں سے بائیس کروڑ روپے،شہری ترقی کے لئے 33کروڑ سترلاکھ میں سے سات کروڑ تیس لاکھ روپے خرچ کئے گئے ہیں‘ دیگر شعبوں کے لئے 1.7ارب روپے جاری ہوئے جن میں سے اب تک 71کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں اسی طرح جو دس سالہ منصوبہ شروع کیاگیاہے اس کے لئے رواں سال وفاقی حکومت نے 59ارب روپے مختص کئے ہیں‘جن میں سے اب تک چوبیس ارب روپے جاری ہوئے ہیں‘جاری شدہ اس رقم میں سے اب تک چودہ ارب روپے یعنی 58فیصد خرچ کئے جاچکے ہیں‘ اس مد میں تعلیم کے لئے 3.1ارب روپے جاری کئے گئے ان میں سے 1.9خرچ ہوچکے ہیں صحت کے لئے جاری کردہ 2.3ارب روپے میں سے 1.3ارب روپے،زراعت کے لئے جاری کردہ 96کروڑ 67لاکھ میں سے 76کروڑ ترانوے لاکھ،صاف پانی کے منصوبوں کے لئے 65کروڑ اکانوے لاکھ میں سے بتیس کروڑ باون لاکھ روپے،کھیل وسیاحت کے لئے اٹھائیس کروڑ بائیس لاکھ میں سے اٹھائیس کروڑ بائیس لاکھ،صنعت کے لئے پندرہ کروڑ میں سے تمام،حج و اوقاف کے لئے چھ کروڑ میں سے دو کروڑ خرچ کئے جاچکے ہیں‘ قبائلی اضلاع میں اے آئی پی کے منصوبوں پر عملدر آمد کے معاملہ میں خصوصی مشکلات کاسامنا رہاہے کیونکہ صحت،تعلیم اور کھیل وغیر ہ کے منصوبوں کے لئے زمین کاحصول انتہائی مشکل تھا۔
اگرچہ انضمام کے بعدلینڈ ایکوزیشن ایکٹ کو قبائلی اضلاع تک توسیع تو دی جاچکی تھی مگر ان علاقوں میں بندوبست اراضی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی رکاوٹیں راستے میں حائل تھیں‘اب متعلقہ ایکٹ میں ترامیم کی منظوری اسمبلی اوررولز کی منظوری کابینہ سے دی جاچکی ہے یوں اب ترقیاتی منصوبوں کے لئے زمین کے حصول کے مراحل خوش اسلوبی سے طے کئے جاسکیں گے کیونکہ اب مقامی رسم ورواج کے تحت زمین حاصل کی جائے گی سابقہ فاٹا میں ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت پر ہمیشہ سے انگلیا ں اٹھتی رہی ہیں‘ ترقیاتی سکیموں کی نیلامی کے الزامات عام تھے‘اربوں روپے کافنڈ ہرسال ضائع ہوتا یا پر مٹھی بھر افراد کی کرپشن کی نذرہوتارہا‘اب انضمام کے بعد ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں اس سلسلہ میں تمام قبائلی اضلاع میں ڈسٹرکٹ سکروٹنی اینڈ کلیئرنس کمیٹیاں قائم کی جاچکی ہیں جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنرز کررہے ہیں جبکہ متعلقہ اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اورمقامی انتظامیہ کے نمائندے کمیٹیوں کاحصہ ہیں یوں اب ایک ایک منصوبہ پر بحث مباحثہ ہوتاہے اندرون خانہ ہونے والی بندر بانٹ کاسلسلہ ختم ہوچکاہے حکومتی ذرائع کے مطابق اے آئی پی کے حوالہ سے یہ تیاری کاسال تھا اب اگلے مالی سال کے دوران سے عملی اقدامات کاسلسلہ مزید تیز کردیاجائے گا تاکہ تیزرفتار ترقی کے ذریعہ ان پسماندہ علاقوں کو دیگر علاقوں کے برابرلایاجاسکے‘ صوبائی حکومت کی طرف سے بیروزگارافراد کے لئے جوسکیم شروع کی گئی اس کے تحت اب تک 3936قبائلی نوجوانوں میں نوے کروڑ روپے سے زائد کی رقم تقسیم کی جاچکی ہے بجلی کے مسائل کے حل کے لئے کام جاری ہے اس وقت اورکزئی اور کرم میں گرڈ سٹیشنوں کی اپ گریڈیشن کے منصوبے جاری ہیں‘جبکہ باجوڑ،شمالی وجنوبی وزیرستان اور مہمند میں نئے فیڈرز قائم کئے جارہے ہیں‘جس کے لئے 3.5ارب روپے جاری ہوئے ہیں اور ان میں سے اب تک 2.2ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں خود وزیر اعلیٰ محمود خان کااس حوالہ سے کہناہے کہ ہمارے اقدامات نے ثابت کردیاکہ قبائلی اضلاع کو قومی دھارے میں لانے کے لئے حکومت پوری طرح سے مخلص ہے اور اس کی کوششیں جاری ہیں قبائلی اضلاع کی ستر سالہ محرومیوں کے خاتمہ کے لئے مزید اقدامات کئے جائیں گے کیونکہ یہ ہمارا وعدہ تھا اور یہ اس علاقہ کے لوگوں کاحق تھا ان لوگوں نے بہت زیادہ مشکل دور کاسامناکیاہے اور اب انصاف کی حکومت ان کے ساتھ مکمل انصاف کرے گی۔
محمود خان چونکہ پانچ سال تک صوبائی وزیر رہ چکے ہیں اسلئے بطوروزیر اعلیٰ انتہائی کامیابی اور مہارت کے ساتھ بتدریج اقدامات کرتے جارہے ہیں امید رکھی جانی چاہئے کہ حکومتی اقدامات کے دور رس اثرات مرتب ہونگے اس سے نہ صرف فرسودہ نظام کے اثرات کاخاتمہ کرنے میں مدد ملے گی بلکہ یہاں کے لوگوں کو روایتی مراعات یافتہ طبقہ سے مستقل طور پر نجات بھی مل جائے گی جو یہاں کے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کادیرینہ مطالبہ تھا جس کی طرف عملی پیشرفت کاسلسلہ تیز ہوتاجارہاہے‘ جیساکہ پہلے بھی کہاگیاہے کہ حکومت کو شدیدمشکلات کاسامنا ہے مالی وسائل کی کمی موجودہے مگر حکومت نے اپنے وعدوں کی تکمیل میں مالی مشکلا ت کو رکاوٹ نہ بننے دیا اس سلسلہ میں اگر یہ کہاجاسکتاہے کہ وفاق اور صوبہ اسی طرح ایک پیچ پررہے تو نہ صرف قبائلی اضلاع کو قومی دھارے میں لانے کے لئے کوششیں کامیابی سے ہمکنارہوسکیں گی بلکہ صوبہ کے مسائل کے حل کے سلسلہ میں پیشرفت ہوگی‘صحت عامہ کے مسائل کے حل میں انصاف کارڈز سے ان طبقوں کو خصوصی ریلیف مل سکے گا‘ جن کے مالی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں قبائلی اضلاع کے ساتھ ماضی میں ناانصافیاں روا رکھی گئیں اب یہ علاقے نہ صرف صوبہ میں ضم ہوچکے ہیں بلکہ صوبائی اسمبلی میں ان کی بھرپور نمائندگی بھی موجود ہے صوبائی کابینہ میں بھی ان کے نمائندے اپناکردار ادا کررہے ہیں جس کے بعد اب امید رکھی جانی چاہئے کہ ان علاقوں میں تعمیروترقی کے منصوبوں پر عملدرآمدکی رفتار تیز سے تیز ترکی جاسکے گی ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ان علاقوں میں سرکاری محکموں کی استعداد کار بڑھائی جائے تاکہ اگلے مالی سال سے تیزرفتار ترقی کے خواب کوشرمندہ تعبیر کرنے میں مدد مل سکے‘وزیر اعلیٰ محمود خان اورچیف سیکرٹری کاظم نیاز کو اس سلسلہ میں مزید سخت رویہ اختیار کرناہوگا کیونکہ عام پر عمال حکومت کی سست روی کی وجہ سے حکومتی اقدامات کے ثمرات سے لوگ محروم ہی رہتے ہیں۔