بزرگ فرماتے ہیں کہ کسی انسان یا قوم پر سختی دوقسم کی ہوتی ہے‘ اچھے لوگوں پر خدا کی طرف سے آرمائش ہوتی ہے تاکہ انسان ہر حال میںخدا کا شکر ادا کرے ‘ صبر کرے اور اللہ سے معافی طلب کرکے آزمائش اور امتحان میں کامیابی کی دعا کرے‘ دوسری قسم کی سختی عذاب ہوتا ہے جو نافرمانوں پر آتا ہے ‘اس سے قبل بار بار ان کو مختلف انداز میں اشارے ملتے رہتے ہیں کہ وہ سدھر جائیں اور گناہوں اور نافرمانی کا راستہ ترک کرکے خدا کی طرف متوجہ ہو جائیں ‘ ہماری دنیا اور ہمارا ملک ایک عرصے سے آزمائشوں کا شکار ہے‘ ایک سے ایک بڑی اور چھوٹی آزمائشیں روزانہ اس قوم پر گزر رہی ہیں ‘ مگر ہم مےںسے اکثر اس کے حل کےلئے تو کوشش کرتے ہیں مگر اسکا سبب جاننے اور خدا سے مدد مانگنے کا آسان راستہ بہت کم لوگ اختیار کرتے ہیں‘ ڈےڑھ دہائی اس قوم پر دہشت گردی مسلط رہی ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں کئی خاندانوں کے پیارے شہید ہوئے ‘لا تعداد عمر بھر کےلئے معذور ہو گئے ‘ان پندرہ سالوں کے دوران بہت کم دن ایسے ہوں گے جب دہشت گردی کی کاروائی نہ ہوئی ہو اور لوگ شہید اور زخمی نہ ہوئے ہوں ‘ خداکا فضل ہے کہ اس لہر میں کافی حد تک کمی آئی ہے اگرچہ اقدامات اب بھی باقی ہےں‘پشاورکو ہی دیکھ لیجئے جگہ جگہ ناکہ بندیاں ‘ریت کی بوریاں اور دیگر حفاظتی اقدامات میں اس پشاور کا حسن گہنا گیا ہے جس میںلوگ آزادانہ گھوم سکتے تھے ‘ کسی بھی سرکاری دفتر کے سامنے سے نزدیکی راستہ اپنا کر گاڑی‘ موٹر سائیکل ‘ سائیکل اور پیدل شہر کے کسی کونے میں چند منٹ میں پہنچ سکتے تھے ‘ خدا کرے کہ امن کی مکمل بحالی کےساتھ ساتھ عوام کو بلا روک ٹوک والا وہ پیارا پشاور بھی جلد واپس مل جائے جہاں کوئی کہیں بھی جا سکتا تھا ‘دہشت گردی کی لہر سے قبل افغان جنگ کے دوران بے پناہ اسلحہ اس جنگ میں آیا جس سے جرائم اور بدامنی میں اضافہ ہوا۔
80 کی دہائی میں کلاشنکوف کےساتھ ساتھ ہیروئن کی وباءبھی ہر جگہ پھیل گئی ‘ نشہ اور اسلحہ لوگوںکی جانیں لینے لگا ‘کلاشنکوف کی وجہ سے ملک بھر خصوصاً خیبرپختونخوا میں ہزاروں افراد دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے‘ملک پر ایک طویل عرصہ سے نالائق حکمرانوں کا اقتدار پر مسلط رہنا بھی ایک بہت بڑی آزمائش ہے مگر بار بار عوام اس آزمائش میں ناکام ہوتے آ رہے ہےں ہر چند سال بعد عوام کوموقع ملتا ہے کہ وہ میرٹ پر اہل ‘قابل اور دےانتدار لوگوں کو منتخب کریں مگر ہر بار ہماری اکثریت اہل اور ایماندار کی بجائے کسی نہ کسی وجہ سے دوبارہ انہی لوگوں کو اقتدار میں بھیج دیتی ہے جوسالہا سال سے اس نظام کا حصہ چلے آ رہے ہیں اور اس کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں‘ نہ صرف نااہل حکمران چند سالوں سے مچھر بھی ہماری قوم پر ایک آزمائش بن کر سامنے آ رہے ہیں‘ ہر سال گرمی کے آغاز اور اختتام پر ڈینگی کی وجہ سے لا تعداد جانیں ضائع ہوتی ہیں ہزاروں لوگ ہسپتال جا کر موت کے منہ سے واپس آتے ہیں‘ بدقسمتی سے حکومت اور اس کے ادارے اسوقت حرکت میں آتے ہیں جب زیادہ تعداد میں جانیں ضائع ہونا شروع ہو جاتی ہیں‘ ڈینگی کےساتھ ساتھ دنیا بھر کی طرح اس سال ہمیں بھی کورونا کی آزمائش کا سامنا ہے ملک میں دوہزار سے زائد افراد اس وباءسے شہید ہو چکے ہیں جبکہ اےک لاکھ سے زائد افراد اس وائرس کا شکار ہوکر زیرعلاج ہیں‘ وباءتو پوری دنیا میں ہے مگر صرف ہمارے ہاں لوگ آج تک اس کو افواہ سمجھ رہے ہیں کوئی احتیاطی تدابیر نہیں کر رہے اور خود متاثر ہونے کےساتھ ساتھ گھر والوں اور دوستوں کو بھی موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں جو لوگ احتیاط نہیں کر رہے۔
ان کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے اب تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ‘سینئر افسران اور نہ جانے کتنے لوگ اس کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں‘ آزمائش یہی ہے کہ اب بھی حکمران آرام سے بیٹھے ہیں جبکہ عوام نام نہاد ایس او پیز کا مذاق اڑا رہے ہیں اور روزانہ سینکڑوں افراد کو جراثیم منتقل کر رہے ہیں‘ بدقسمتی سے اس خطے کے لوگ چند سال میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی آزمائش کا شکار ہوئے اورابھی تک وہ آزمائشیں جاری ہیں‘ ایک دوست کے مطابق ٹڈی دل ‘ مچھر اور چوہے کئی سال قبل بھی تھے مگر نہ تو آج کل کی طرح ٹڈی دل نے کروڑوں روپے کی فصلوں کو نقصان پہنچایا ‘ نہ ہی ڈینگی جیسے مچھروں کا وجود تھا جو کئی جانیں نگل جاتے ہیں اور تو اور اب تو چوہے بھی ایسے آ گئے ہیں کہ بلیاں ان سے خوفزدہ ہوتی ہیں اور بار بار لوگوں نے چوہے کے کاٹنے کی وجہ سے ہسپتال کا رخ کیا ہے‘ ہمارے علاقوں میں تو باقاعدہ فی چوہا انعام کا اعلان کیا گیاتھا مگر صوبائی اور ضلعی حکومتیں آج تک اس پر قابو نہیں پا سکیں مہنگائی ‘بجلی کے ناروا بل ‘کئی سال سے لوڈشیڈنگ بھی آزمائش کی قسمیں ہیں جوصرف ہماری قوم پر مسلط ہیں‘ حلال کمانے والے کےلئے مہنگائی کا مقابلہ کرنا بجلی کے بل ادا کرنا ناممکن ہوگیا ہے مگر بہت سے لوگ اس امتحان کےلئے تیار ہیں اور اپنی آخرت کو زیادہ مقدم سمجھتے ہیں ورنہ حرام کمانے اور بجلی چوری کرکے کئی کئی اے سی چلانا کسی علاقے میں نہیں ہو رہا‘خدا کرے کہ ہم سب ان آزمائشوں میں کامیاب ہو ں صرف اللہ پر توکل ہو تو بڑے سے بڑے مسائل حل ہو جاتے ہیں یا آخرت میں اس کا اجر ملتا ہے ۔