کورونا وائرس سے متاثر اور صحت یاب ہونےوالوں کی کہانیاں خاصی دلچسپ اور سبق آموز ہیں کہ متاثرہ افراد کو چند دنوں میں اپنے اہل خانہ‘ عزیزواقارب‘ دوست احباب اور کاروباری یا دفتری تعلق داروں سے ایسے شدید روئیوں کا سامنا کرنا پڑا‘ جو ان کی توقعات سے کہیں گنا بڑھ کر ناقابل یقین ہوتے ہیں‘ پاکستانیوں کی شاید یہی خصوصیت ہو کہ ان کے تعلق‘ انس‘ لگاو¿‘ محبت اور نفرت میں شدت پائی جاتی ہے‘ موجودہ حالات میں بالخصوص شاید ایسا ہونے کی بنیادی وجہ خوف و ہراس ہو کیونکہ کورونا وبا کےساتھ پراسراریت کا لاحقہ لگا ہوا ہے اور دنیا بھر کے طبی ماہرین نہ تو اس جرثومے کے آغاز اور نہ ہی اس کے انتہائی کم وقت میںعالمی وبا بننے کی حیران کن صلاحیت کے بارے میں کوئی بات وثوق سے کہہ پا رہے ہیں۔ اب تک جو چند حقائق سامنے آئے بھی ہیں تو ان سے ابہام اور شکوک و شبہات میں کمی کی بجائے صورتحال مزید الجھ گئی ہے‘امریکی جریدے نیوز ویک نے حالیہ اشاعت میں ایک طبی تحقیق کا ذکرکیا ہے جس کے مطابق خون کی ایک خاص قسم جسے او بلڈ گروپ کہا جاتا ہے سے تعلق رکھنے والے افراد نسبتاً کم کورونا سے متاثر ہوتے ہیں‘بائیو ٹیکنالوجی کمپنی 23 اینڈ می کی رواں برس کے ابتدا سے جاری اس تحقیق میں ساڑھے سات لاکھ کورونا متاثرین کے کوائف کو جمع کرکے انکی جانچ پڑتال کی گئی اور بلڈگروپ کے حوالے سے ایک نتیجہ جاری کیا گیا کہ درجہ بندی کے لحاظ سے او گروپ کے حامل افراد میں کورونا وائرس دیگر خون گروپ رکھنے والوں کے مقابلے اٹھارہ فیصد تک کم تشخیص ہوا ہے‘تحقیق میں دیگر تین بنیادی بلڈ گروپ (اے‘ بی اور اے بی) رکھنے والوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہیں کورونا سے خطرات لاحق ہیں‘۔
او بلڈ گروپ میں منفی کی نسبت او گروپ مثبت رکھنے والے زیادہ محفوظ بیان کئے گئے ہیں‘ مذکورہ طبی تحقیق پر رواں برس ماہ اپریل میں کام شروع ہوا تھا اور اس میں حصہ لینے والے رضاکاروں سے سوالات پوچھے گئے جیسا کہ کیا انہیں فلو یا نزلہ زکام جیسی علامات کا سامنا ہوا؟ ان میں کورونا وائرس کی تشخیص مرض کی علامات ظاہر ہونے سے قبل یا بعد میں ظاہر ہوئیں؟کیا انہیں علاج معالجے کےلئے ہسپتال میں داخل رہنا پڑا تھا یا نہیں۔ اس تحقیق سے ان سبھی افراد کو کچھ نہ کچھ اطمینان ضرور ہونا چاہئے جن کے خون کا گروپ او پازٹیو یا نیگٹیو ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ کورونا وبا سے کوئی بھی اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک کہ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرے۔کورونا کہانیوں سے اب تک یہی پتہ چلا ہے کہ صحت یاب اور متاثرہ افراد کی بڑی تعداد معالجین کے کردار سے مطمئن نہیں یا پھر اکثریت کےلئے ہسپتال زندگی سے زیادہ موت کی علامت ہیں اور ایک انتہائی قلیل تعداد ایسی بھی ہے جنہیں ڈاکٹر میسر نہیں‘ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ کورونا ٹیسٹ کو اپنے آپ کےلئے نہیں بلکہ خود سے جڑے لوگوں کو محفوظ رکھنے کی غرض سے صرف اسی وقت ہونا چاہئے جبکہ مرض کی ابتدائی علامات جیسا کہ سونگھنے اور چکھنے کی حس ختم ہونا ظاہر ہوں۔ کورونا متاثرین کی کہانیاں سننے کے دوران اسوقت دکھ ہوتا ہے جب بہت سے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے پاس ادویات خریدنے کی مالی سکت نہیں یا ان کے گھروں میں اتنی گنجائش نہیں کہ وہ الگ تھلگ رہ سکیں۔
بڑی تعداد ایسے متاثرین کی ہے جو یہ بتاتے اور شکوہ کرتے ہیں کہ چند کمروں کے گھر میں جہاں بہت سے اہل خانہ مل جل کر رہتے ہیں وہاں سماجی دوری کس طرح اختیار کی جا سکتی ہے؟کورونا سے بفضل خدا صحت یاب ہونےوالوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک ہفتے میں کم سے کم ایک مرتبہ اپنا پلازمہ عطیہ کریں جو 2 مریضوں کی جان بچا سکتا ہے‘ توجہ طلب ہے کہ کورونا وبا کا شکار ہونے والے سے نفرت کی بجائے ہر ممکنہ دل جوئی کی جائے تاکہ وہ خود کو تنہا نہ سمجھے اور اس کے حوصلے بلند رہیں‘کورونا وبا سے جلد صحت یابی کےلئے ضروری ہے کہ بیماری کےخلاف کسی بھی شخص کی قوت ارادی مضبوط رہے اور وہ بیماری یا موت کے خوف سے ذہنی دباو¿ کا شکار نہ ہو‘ صحت مند افراد سماجی ذمہ داری اور فرض سمجھتے ہوئے پلازمہ جو انسانی جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے عطیہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کورونا وائرس کو شکست دی جا سکتی ہے‘اس سلسلے میں پہلی تجویز یہ ہے کہ کورونا کے صحت مند متاثرین کے کوائف کا استعمال کرتے ہوئے ہر شخص سے فرداً فرداً بات کی جائے اور اسے پلازمہ عطیہ کرنے کےلئے قائل کیا جائے‘دوسری تجویز یہ ہے کہ کورونا متاثرین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے تناو¿ بھرے ماحول کو دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتے‘ اسلئے تجربہ شرط ہے کہ موبائل گاڑیوں کے ذریعے پلازمہ عطیات جمع کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔