قومی وسائل پرانحصار

 وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میںآبی وسائل کے فروغ ‘ڈیموں اور پن بجلی کے منصوبوں کیلئے ایک کھرب77ارب 50کروڑ روپے مختص کرنے کا عندیہ دیا ہے‘ قومی خزانے سے ان منصوبوںکےلئے164ارب روپے اور بیرونی ذرائع سے 13ارب 50کروڑ روپے حاصل کئے جائیں گے‘ داسو پن بجلی گھر منصوبے کی تعمیر کیلئے 80ارب‘دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 21ارب ‘نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 14.7ارب ‘ منگلا ڈیم کی اپ گریڈیشن کیلئے 5ارب‘ تربیلا ڈیم کے دو توسیعی منصوبوں کیلئے 8.90ارب اور مہمند ڈیم کیلئے 7ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے 13 منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پن بجلی کی پیداوار کے نئے منصوبوں کےلئے 114ارب روپے سے زائد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ آبی وسائل کی بہتری کے 82 جاری منصوبوں کےلئے632 ارب روپے مختص کئے جائیں گے پاکستان گلیشیرمانیٹرنگ نیٹ ورک منصوبہ بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے‘ منصوبے کےلئے 20کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے‘ گولن گول پن بجلی منصوبے کےلئے 99 کروڑ ‘خیال خواڑ منصوبے کیلئے 1ارب 35 کروڑ ‘ورسک ہائیڈروالیکڑک پاور سٹیشن کےلئے 3ارب20 کروڑ اورلسبیلہ میں ونڈر ڈیم کی تعمیر کےلئے اڑھائی ارب روپے سے زائد رکھنے کامنصوبہ ہے‘ملک کے آبی وسائل کو توانائی کے حصول اور زرعی ترقی کےلئے بروئے کار لانے کی حکومتی سطح پر سنجیدہ کوششوں کا اب تک فقدان رہا ہے۔

60کے عشرے میں جنرل ایوب خان کے دور میں تربیلا ڈیم سمیت موجودہ آبی ذخائر تعمیر کئے گئے لیکن اس کے بعدگذشتہ پچاس سالوں میں کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہوسکا۔حکومتوں کی تمام تر کوششیں تیل سے چلنے والے تھرمل پاور پلانٹس کے حصول پر مرکوز رہی ہیں اور ان معاہدوں میں کروڑوں ڈالر کمیشن لی گئی۔پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے علاوہ سورج کی روشنی‘ ہوا اور کوئلے سے بھی سستی بجلی پیدا کرنے کے وسیع مواقع ہیں مگر اس میں بھی قابل ذکر پیشرفت دکھائی نہیں دیتی‘بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے‘ اس سے بنجر اراضی کو سیراب اور توانائی حاصل کرنے کے سنہرے مواقع سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک توانائی کی قلت کے مسئلے سے دوچارہے۔سابقہ حکومت نے بجلی کی پیداوار میں خود کفالت کا دعویٰ تو کیا تھا مگرقوم کو روزانہ دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے ابھی تک نجات نہیں ملی۔ گرمیوں میں طلب زیادہ ہونے کے بہانے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے اور سردیوں میں ڈیموں میں پانی کی سطح کم ہونے سے پیداوار گھٹنے کا جواز پیش کرکے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانی سے 50ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ شمسی توانائی‘ کوئلے اور جوہری پلانٹ سے دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے‘ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی مجموعی قومی ضرورت سے تین گنا زیادہ ہے جس کی برآمد سے خطیر زرمبادلہ کمایاجاسکتا ہے‘دریائے سوات‘ دریائے کنہار‘ دریائے چترال‘ دریائے پنج کوڑہ‘ دریائے کرم اور دریائے نیلم سے بجلی پیدا کرنے کی جتنی گنجائش موجود ہے اس کے صرف دو فیصد سے اب تک استفادہ کیا جاسکا ہے۔

 بروغل‘ لاسپور‘ تریچ‘گرم چشمہ ‘ بروم گول‘ بندو گول‘ریشن ‘ بونی ‘ کوغذی اور دیگر ندی نالوں سے دریائے چترال میں شامل ہونےوالے پانی سے دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی صرف چترال میں پیدا کی جاسکتی ہے‘جس سے نہ صرف توانائی کی ملکی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اور صنعتوں کو ترقی دی جاسکتی ہے بلکہ زراعت‘معدنیات اور سیاحت کے شعبوں کو بھی ترقی دی جاسکتی ہے اور ہزاروں افراد کےلئے روزگارکے مواقع بھی پیدا ہوسکتے ہیںلیکن بدقسمتی سے آج تک یہ منصوبے کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔ حکومت نے آبی وسائل کو فروغ دے کرقومی ترقی کےلئے ملکی وسائل پر انحصار کا جو منصوبہ بنایا ہے وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے ملکی ترقی کے ان منصوبوں کےلئے بین الاقوامی ادارے مالی وسائل فراہم کرنے کےلئے تیار ہیںحکومت کو آبی ذخائر میں اضافے کےلئے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور کالاباغ ڈیم سمیت بڑے آبی ذخائر کی تعمیرکےلئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں ۔دیامربھاشا ڈیم کی صدائے بازگشت گذشتہ دو عشروں سے سنائی دے رہی ہے گذشتہ چار حکومتیں اس کا افتتاح بھی کرچکی ہیں لیکن برسرزمین ڈیم کی تعمیر پر کوئی کام نظر نہیں آتا،ملکی ترقی کے اس اہم ترین منصوبے پر عملی کام شروع کرنے کو قومی ترجیح قرار دینے کی ضرورت ہے۔آبی وسائل کی ترقی کےلئے حکومت نے ریکارڈ بجٹ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے اگلے مالی سال کی ابتداءسے ہی ان منصوبوں پر عملی کام شروع ہوجائے تو آئندہ پانچ سال مےں توانائی اور آبی ذخائر میں خود کفالت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔