بجٹ :کوروناہنگام

 مالی خسارہ کسی ایک بجٹ کی داستان خصوصی نہیں بلکہ سال ہا سال سے معمول ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خسارے کا بجٹ پیش کرتی ہیں‘ جو ٹیکس فری بھی ہوتا ہے یعنی اس میں نئے محصولات عائد نہیں کئے جاتے اور مختلف شعبوں پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جاتی ہے جیسا کہ جائیداد کی خریداری پر عائد 5 فیصد اسٹمپ ڈیوٹی کو کم کر کے 1 فیصد کر دیا گیا ہے اور زیادہ بڑے تناظرمیں دیکھا جائے تو وفاقی حکومت نے صنعتکاروں کے مطالبے پرسیلز ٹیکس کی شرح میں بھی کمی کی ہے‘جب ایک طرف آمدنی کم ہو اور دوسری طرف محصولات میں اضافے کی بجائے ان کی شرح میں کمی کی جا رہی ہو تو اس مالی عدم توازن کو پورا کرنے کےلئے حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے اور یہیں سے پاکستان کی مالی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے‘بارہ جون کو پیش کردہ قومی اقتصادی جائزے کے مطابق جولائی 2019ءسے مارچ 2020ءکے درمیانی عرصے میں پاکستان کے ذمے مجموعی قرض اور مالی واجبات 20کھرب 59ارب 70کروڑ روپے تک جا پہنچے ہیں جبکہ قرض و واجبات بڑھتے بڑھتے قومی آمدنی سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ قرض پاکستان کی جی ڈی پی کے 102.6فیصد تک پہنچ چکی ہے یعنی پاکستان کی قومی آمدنی کے ہر 100 روپے میں سے 102روپے 60 ساٹھ پیسے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتے ہیں اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مالی سال 2020-21ءکا بجٹ ایک ایسی صورتحال میں پیش کیا گیا ہے جبکہ ہر طرف کورونا کہرام برپا ہے! حکومت کے شاہانہ اخراجات میں غیرمعمولی کمی کی ضرورت ہے تاکہ قرضوں پر منحصر معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو‘ اقتصادی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی قرضوں میں سب سے زیادہ اضافہ مقامی قرضوں کی وجہ سے ہوا‘ جو بڑھتے ہوئے 10 کھرب 74ارب 60کروڑ روپے تک جا پہنچے ہیں جبکہ بقیہ اضافہ حکومت کے غیرملکی قرض سے ہوا جو 6کھرب 3ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔

 سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2020ءتک سرکاری قرض جی ڈی پی کے 84.4 فیصد تھا۔تحریک اِنصاف کی شروع دن سے کوشش و خواہش ہے کہ قومی قرضوں کے حجم میں کمی یعنی قومی مالیاتی ذمہ داریوں ادا ہوں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کوشش و خواہش میں مزید قرض لئے گئے‘وزیراعظم نے مال مویشیوں پر توجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ مرغ بانی کی بات ہوئی لیکن اسے بھی مذاق میں اڑایا گیا‘سوشل میڈیا پر طنز عام ہوا اب وزیراعظم نے کہا ہے کہ حکومت نے چھوٹے کاروبار کی سرپرستی کا اعلان کیا ہے لیکن اس اعلان کو بھی خاطرخواہ سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا‘لیکن بہتری اسی صورت آئے گی جب وزیراعظم چھوٹے کاروبار کےلئے قرض دیتے ہوئے یہ شرط عائد کریں نئے کاروبار اور صنعتوں کےلئے پچانوے فیصد مشینری مقامی طور پر خریدی جائے گی یکم جولائی سے شروع ہونےوالے پہلے بجٹ کے پہلے چھ ماہ کورونا وائرس سے متاثر رہے گی۔ صنعتیں اور کاروبار پھل پھول نہیں سکیں گے‘ نئی ملازمتوں کے مواقع نہیں پیدا ہوں گے۔

 زمینیں پڑی ہیں‘ کم سے کم آبادی کے تناسب سے فصلیں ہونی چاہئےں‘ ٹماٹر آلو جیسی چیزیں کم ہوجاتی ہیں اور اس سے نہ صرف غذائی خودکفالت ہو گی بلکہ زرعی شعبہ روزگار کی فراہمی کے ساتھ ایس او پیز کےساتھ روزگار فراہم کر سکتا ہے‘ دیگر شعبے بھی اہم اور ضروری ہیں لیکن وہاں کی ترقی کےساتھ جو ملازمتی مواقع پیدا ہوتے ہیں لیکن ان میں ایس او پیزپر عملدرآمد نہیں ہوتا‘ زرعی شعبے کو ٹڈی دل سے خطرات لاحق ہیں‘ماضی میں بھی ٹڈی دل آتا رہا۔ افریقہ میں زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے ٹڈی دل اتنی بڑھی کہ وہ ہوا کےساتھ ایران کےساتھ پاکستان میں داخل ہوئے‘ پاکستان پہنچنے سے پہلے مغربی ذرائع ابلاغ خبر دے رہے تھے کہ اس سال 400 گنا بڑا ٹڈی دل آگے بڑھ رہا ہے جسے پاکستان کے فیصلہ سازوں نے خاطرخواہ اہمیت نہیں دی‘ ٹڈی دل افریقہ سے چل کر پاکستان پہنچنے میں ایک مہینہ لگا لیکن ہمارے سیاسی اور غیرسیاسی فیصلہ ساز نہ تو بھانپ سکے اور نہ ہی انہیں معلوم ہو سکا کہ یہ کب پہنچے گا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین ٹڈی دل چاروں صوبوں کو کہیں کم تو کہیں زیادہ متاثر کر رہا ہے اور ہمارے پاس فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کے اعدادوشمار بھی دستیاب نہیں کہ کل کتنا نقصان ہو چکا ہے اور کس قدرمزید ہو گا۔