20ڈالراورانقلابی تحریک

 میناپولس(Minneapolis) امریکی ریاست منیسوٹا کا دارالحکومت اور429606 افرادکی آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا اور نفیس شہر ہے ‘ دریائے مس سیپی جنوری میں منجمد ہو جاتا ہے درجہ حرارت30 ڈگری تک گر جاتا ہے اور شہریوں کا گھریا گاڑی سے باہر آنا ناممکن ہو جاتا ہے سرکار نے اس مسئلہ کے حل کےلئے شہر کے ایک بڑے حصے میں بلندوبالا عمارتوں کو اوپری منزل میں ایک دوسرے سے پیوست کر رکھا ہے یعنی باہر نکلے بغیر آپ ایک عمارت سے دوسری عمارت میں داخل ہوکر کئی کلومیٹر دور اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں اوپری منازل ہونے کی وجہ سے ان رستوں کو سکائی ویز کہا جاتا ہے جنوری کی ایک شام خواجہ مدثر نے باہر جانے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے مسکرا کر معذرت کر لی کیونکہ مجھے موسم کی شدت کا اندازہ تھا خواجہ مدثر جو ڈیرہ غازی خان کے ایک معزز مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور سابق تحصیل ناظم ہیں‘ وہ کمرے سے نکلے اور تقریباً ایک منٹ بعد دوڑ کر واپس آگئے کہ سائیں باہر واقعی بڑی سردی ہے‘ اس سردی کا اثر شاید مقامی چند افراد پر بھی ہوا ہے اس لئے وہ سرد مزاج ہو گئے ہیں‘ ایک ایسے ہی سرد مزاج والے پولیس اہلکار کی سرد مہری کی وجہ سے آج نہ صرف پورا امریکہ بلکہ دنیا سراپا احتجاج ہے‘ پولیس اہلکار ڈیرک چاون کو مقامی سٹور کے عملے کی طرف سے اطلاع ملی کہ ایک گاہک نے ان کو 20 ڈالر کا جعلی نوٹ دیا ہے اور جب عملے نے ان کی توجہ اس جانب دلائی تو گاہک نے خریدی گئی سگریٹ واپس کرنے سے انکار کیا اور اس بات پر اڑ گےا کہ نوٹ اصلی ہے۔

 ڈیرک تین دیگر اہلکاروں کے ہمراہ فوراً سٹورآئے کلرک نے ایک سیاہ فام شخص کی طرف اشارہ کیا تو سفید فام ڈیرک نے 6 فٹ4 انچ لمبے 46 سالہ جارج فلائےڈ کو فوراً دبوچ کر زمین پر پٹخ دیا اور اپنی تکنیک استعمال کرتے ہوئے گھٹنے سے جارج فلائےڈ کی گردن دبوچ لی ‘ شاید سیاہ فام افراد کےلئے نفرت تھی یا وردی کا زغم کہ بار بارچلانے اور تکلیف میں کراہنے کے باوجود پولیس اہلکار نے جارج کی گردن8 منٹ اور46 سکینڈ تک دبائے رکھی‘ وہ بیچارہ چیختا رہا کہ اس کی سانس بند ہو رہی ہے مگر پولیس والے نے اسوقت گردن چھوڑی جب وہ دم توڑ چکاتھا‘ مقامی افراد اس دوران واقعہ کی ویڈیو بناتے رہے ‘انہوں نے پولیس اہلکار سے اپیل کہ اس شخص کو چھوڑ کر حوالات میں بند کیا جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے یا جرمانہ کیا جائے مگر ایک سفید فام کےلئے 20 ڈالر کا جعلی نوٹ بہانہ بن گیا کہ کس طرح وہ ان سیاہ فام افراد کی گردن دبوچ کر ان کی سانس روک دے جو امریکہ اور دنیا بھر میں ان کی برابری کے دعویدار ہیں‘ منیسوٹا کے قوانین کے مطابق ایک ہزار ڈالر سے کم کی جعلی کرنسی رکھنے پر زیادہ سے زیادہ 3 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے مگر پولیس اہلکار نے اختیارات سے تجاویز کرتے ہوئے 20 ڈالر کے جعلی نوٹ پر ایک ایسے شخص کی جان لی جس کو علم بھی نہ تھا کہ وہ واقعی جعلی نوٹ استعمال کر رہا ہے کیونکہ کئی مقامی افراد نے جارج فلائےڈ کے واقعہ کے بعد انکشاف کیا کہ کچھ دنوں سے ان کو جعلی نوٹ دےئے گئے تھے جو شاید اس علاقے میں پھیلائے گئے تھے ‘سفید فام پولیس اہلکار نے تو اپنی حدود سے تجاویز کیا مگر جارج فلائےڈ کی موت نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھرکا ضمیر جھنجھوڑ ڈالا ‘ویڈیو سوشل میڈیا پر منظرعام پر آتے ہی پہلے مےناپولس اور پھر امریکہ بھرمیں نسل پرستی کےخلاف مظاہرے شروع ہوئے جو چند دنوں میں نہ صرف امریکہ کے 400 سے زائد شہروں بلکہ دنیا کے کئی ممالک تک پھیل گئے اور حکومت کو سرکاری عمارتوں کی حفاظت کےلئے فوج بلانا پڑی‘ کینیڈا کے سفید فام وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے گھٹنوں کے بل جھک کر46 سالہ سیاہ فام ٹرک ڈرائیور کو نہ صرف خراج تحسین پیش کیا بلکہ اس ناروا سلوک پر معافی بھی مانگی۔

 جارج فلائےڈ کی چھوٹی بیٹی سے جب پوچھا گیا کہ والدکے بارے میں کیا کہتی ہو تو اس نے معصومیت سے کہا کہ وہ والد کو تو کھو بیٹھی ہے مگر اسے خوشی ہے کہ اس کے والد کی قربانی نے دنیا بدل ڈالی ہے‘ ایک انقلاب آ رہا ہے‘ دنیا بھر میں بڑے بڑے انقلاب ایسے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات سے آتے ہیں ‘اس واقعے نے جہاں امریکہ جیسے بہترین معاشرے میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی ہے وہاں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ چاہے غریب اورکمزور ملک ہوں یا سپرپاور ‘وردی والے اہلکار ہر جگہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیںاس تمام تر صورتحال میں پیارے نبی حضرت محمد کے وہ سنہرے الفاظ بار بار مغربی میڈیا اور امریکہ سمیت کئی ممالک میں مظاہروں کے دوران یاد دلائے گئے جن میں آقا نے فرمایا کہ کسی کالے کو گورے اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں‘ مہذب معاشرہ آج جس نسل پرستی کی نفی کر رہا ہے اسلام نے 14 سو سال قبل اس کو قانون بنایا کہ معاشرے میں کسی کو زیادہ طاقتور ‘مالدار یا خوبصورت ہونے یا کسی خاص قوم سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر کوئی فضلیت حاصل نہیں بلکہ اگر فضلیت حاصل ہے تو صرف تقویٰ اور نیکی پر‘ خدا کرے کہ ہم بھی دہرے معیار کی بجائے اگر کسی کو فضلیت دیں تو صرف اس کی نیکی اور تقویٰ پر دیں۔