اسرائیل نے تمام رہائشیوں کو سفری سہولت فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس میں رنگ روڈ کی تعمیر کا کام شروع کردیا۔ دوسری جانب ناقدین نے اسرائیل کے منصوبے کو ریاست کے دارالحکومت سے متعلق فلسطینیوں کی خواہش کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ مذکورہ تعمیرات مشرقی بیت المقدس کو ریاست کے دارالحکومت قرار دینے کی فلسطینیوں کی خواہش میں رکاوٹ ثابت ہوگی۔
واضح رہے اسرائیل کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے رنگ روڈ کا نام 'دی امریکن روڈ' رکھا گیا جو مغربی غزہ میں اسرائیل کے زیر قبضہ یہودی آباد کاری سے ملے گا۔ اسرائیل میں ضلعی انتظامیہ کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ روڈ کے وسطی اور جنوبی حصے پر کام پہلے ہی سے جاری ہے اور شمالی حصے کا ٹینڈر رواں برس کے اختتام تک شائع ہوجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ مذکورہ منصوبہ 18 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوگا۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ سڑک علاقے میں مقیم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے ٹریفک میں آسانی پیدا کردے گی۔ واضح رہے کہ مذکورہ منصوبے میں تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر طویل سرنگ بھی شامل ہوگی۔ مقبوضہ بیت المقدس کے نائب میئر اروی کنگ نے روڈ کے حق میں جواز پیش کیا کہ 'یہ بستیوں کو ایک نہیں کرتا اور مذکورروڈ سرحدوں اور میونسپل لائنوں کو بھی ایک نہیں کرتا'۔
انہوں نے کہا کہ 'لیکن یہ روڈ روزانہ کی آمد و رفت کو بہتر کرے گا، تعلیم، سیاحت یا تجارت کے مفید سہولت فراہم کرے گا اور پھر عملی طور پر یروشلم کا ایک بہت بڑا شہر تشکیل دیتے ہیں'۔ دوسری جانب فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اس نئی سڑک سے بنیادی طور پر آباد کاروں کو فائدہ ہوگا اور اس سے مشرقی بیت القمدس کی ریاست کے دارالحکومت کی حیثیت سے اس کے امکانات کو مزید نقصان پہنچے گا جو وہ مغربی کنارے اور غزہ میں چاہتے ہیں۔
بیت المقدس کے امور کے فلسطینی وزیر فادی الہدیمی نے ای میل بتایا کہ 'اس منصوبے سے شہر کے اندر فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے منقطع کردیا گیا ہے'۔ رائٹرز کے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہ امریکن روڈ اسرائیل کے 'غیر قانونی' رنگ روڈ منصوبے کا حصہ ہے، جس نے 'اسرائیلی بستیوں کو مزید جوڑنے اور مقبوضہ فلسطینی دارالحکومت کو مغربی کنارے کے باقی حصوں سے الگ کرنے کے لیے 'مقبوضہ مشرقی بیت القمدس کے چاروں طرف سے واقع ہے'۔
اسرائیل کی غیر قانونی تعمیرات سے متاثرہ فلسطینی خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے اسرائیلی وکیل ڈینیل سیڈیمن نے کہا کہ بائی پاس اسرائیل کا ایک طویل المعیاد حکمت عملی ہے جس سے فلسطینی علاقے کو الحاق کرنے میں مدد ملے گی۔ اسرائیلی وکیل نے کہا کہ مشرقی بیت القمدس اسرائیل کے مکمل زیر قبضہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی مغربی کنارے اور جنوب مغربی کنارے پر یہود آبادی کاری کے بعد انضمام کے تمام مراحل آسان ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'حقیقت یہ ہے کہ اس سے کسی حد تک فلسطینی مشرقی یروشلمی کو فائدہ ہو گا لیکن یہ خودکش حملہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں'۔ واضح رہے کہ فلسطین کے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں کو ضم کیا تو فلسطین مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تمام مغربی کنارے اور غزہ پر ریاست کا اعلان کردے گا۔
فلسطینی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے فلسطین کے زیر قبضہ علاقوں کو انضمام کرنے کا منصوبہ جاری رکھا تو تمام مغربی کنارے اور غزہ پر ریاست کا اعلان کریں گے اور عالمی سطح پر اس کو تسلیم کرانے کے لیے زور دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: امن منصوبے سے انکار پر اسرائیل فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کرے، امریکی عہدیدار
بینجمن نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے آزاد فلسطین کے علاقوں تک توسیع کے انضمام کے منصوبے پر یکم جولائی سے کابینہ میں بحث شروع ہوگی۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے 23 اپریل کو کہا تھا کہ اگر مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل میں انضمام کیا گیا تو فلسطینی حکام کے اسرائیل اور امریکا سے ہوئے معاہدے کو مکمل طور پر منسوخ تصور کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا اور اسرائیلی حکومت سمیت متعلقہ بین الاقوامی فریقین کو آگاہ کردیا کہ اگر اسرائیل نے ہماری زمین کے کسی حصے کا انضمام کرنے کی کوشش کی تو ہم ہاتھ باندھے نہیں کھڑے رہیں گے۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔
فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔