پاک بھارت جنگ کے امکان پر امریکی سی آئی اے کی پرانی خفیہ رپورٹ سامنے آگئی

امریکی خفیہ ایجنسی ”سی آئی اے“ کی جانب سے حال ہی میں 1993 میں تیار کردہ ایک خفیہ ”نیشنل انٹیلی جنس رپورٹ“ (NIE) کو ڈی کلاسیفائی کیا گیا ہے، جو اُس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ کے خدشات کا جائزہ لینے کے لیے تیار کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ فروری 2025 میں عوامی سطح پر جاری کی گئی اور اب امریکی حکومت کی ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔ حیران کن طور پر تین دہائیوں پرانی اس رپورٹ کی کئی پیش گوئیاں آج بھی درست ثابت ہو رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، اگرچہ اُس دور میں روایتی جنگ کے امکانات کو کم قرار دیا گیا، لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کے امکان کو پانچ میں سے ایک قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر کسی ایک فریق کو یہ یقین ہو جائے کہ دوسرے نے کسی بڑے دہشت گرد حملے کی سرپرستی کی ہے، تو جنگ بھڑک سکتی ہے۔

رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ ’بھارتی سیکیورٹی فورسز ایک ایسی بغاوت سے نبرد آزما ہیں جس کا کوئی انجام نظر نہیں آ رہا۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات معمول ہیں، خاص طور پر موسم بہار میں جب کشمیری مجاہدین اپنی جدوجہد کا نیا مرحلہ شروع کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں بھارت کشمیر کو پاکستان سے ملنے سے روک سکتا ہے، لیکن وہ اس بغاوت کو ختم کرنے میں اس دہائی کے دوران کامیاب نہیں ہو سکے گا۔‘

یہ امریکی رپورٹ اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ کشمیری حریت پسند بھارت کے لیے مستقل دردِ سر بن چکے ہیں، اور ان کی مزاحمت بھارتی فوج کو مسلسل الجھائے رکھے گی۔ رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ نئی دہلی کی سخت پالیسیوں نے کشمیری اعتدال پسندوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی عمل بحال کرنے کی بھارتی کوششیں بھی ناکام ہو رہی ہیں۔

رپورٹ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت خود پاکستان میں علیحدگی پسند عناصر کی مدد کرتا رہا ہے، تاہم اس کی مداخلت پاکستان کے ردعمل کے مقابلے میں کمزور رہی ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی پرزور حمایت کرتا ہے، اور ہر فورم پر بھارت کے جبر کو بے نقاب کرتا ہے۔

سی آئی اے کی اس پرانی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر بھارت کو یقین ہو جائے کہ پاکستان کشمیر میں بھارت کے خلاف حملے کی تیاری کر رہا ہے تو بھارت پیشگی کارروائی کا منصوبہ رکھتا ہے، جس کے مطابق راجستھان اور پنجاب میں جنگی ماحول بنا کر فوج تعینات کی جائے گی اور جواب میں پاکستان بھی ایسا ہی کرے گا۔

اس کے علاوہ بھارتی فوج کی جانب سے پاکستانی حدود میں سرحد پار کوئی کارروائی تاکہ ’پاکستان کو سزا دی جاسکے‘۔

رپورٹ میں 1987 اور 1990 کے وہ بحران بھی یاد دلائے گئے ہیں جن میں بھارت اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ بھارت کی ”براس ٹیکس“ مشقوں نے خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، جسے پاکستانی قیادت کی سفارتی حکمت عملی نے ٹال دیا۔ بعد ازاں پاکستان نے ”ضربِ مومن“ کے نام سے بڑی فوجی مشق کے ذریعے بھارت کو پیغام دیا۔

رپورٹ کے مطابق، بھارت کی کشمیر میں اضافی فوجی تعیناتی اور پاکستان کے جوابی عسکری اقدامات 1990 میں ایک اور بڑے بحران کا سبب بنے۔ بھارت نے اس وقت پاکستان کے معمول سے زیادہ فوجی اجتماع کو خطرہ سمجھا اور اپنے آرمرڈ اور آرٹلری یونٹس کو سرحد کے قریب منتقل کر دیا۔

یہ رپورٹ بھارت کی اُس پالیسی کو بھی بے نقاب کرتی ہے جس کے تحت وہ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے مسلسل فوجی طاقت کا استعمال کرتا رہا ہے، لیکن وہ آج تک اس میں ناکام ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔

’جنگ فی الحال متوقع نہیں‘

نیشنل انٹیلیجنس ایسٹیمیٹ (NIE) کے مطابق، باوجود اس کے کہ خطے میں متعدد کشیدہ نکات موجود ہیں، بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کے امکانات مجموعی طور پر پانچ میں سے ایک یعنی 20 فیصد ہیں، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

  • دونوں ممالک کی قیادت ایک دوسرے کے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت سے خائف ہے، اس لیے ایسی کسی جھڑپ سے اجتناب کریں گے جو جوہری جنگ کی طرف جا سکتی ہو۔
  • بھارت اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو اس بات کی شدید فکر ہے کہ اگر چوتھی جنگ ہوئی تو اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
  • جوہری صلاحیت کے حامل میزائلوں کی تنصیب اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ تو بڑھے گا، لیکن طویل المدت میں خاص طور پر پاکستان کے لیے ایک مؤثر دفاعی رکاوٹ مہیا کرے گا۔
  • عسکری قیادت بھی احتیاط برتے گی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی جنگ میں فتح کی کوئی قیمت قبول کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ دونوں افواج جنگ کے لیے مکمل تیار نہیں ہیں۔
  • رپورٹ کے مطابق بجٹ کی کمی، سپلائی کے مسائل، اور اندرونی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں ان کی تیاریوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔

سی آئی اے کی رپورٹ ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو دنیا کے سامنے لاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر محض دو ممالک کا تنازع نہیں، بلکہ ایک قوم کی آزادی اور انسانیت کے حق کا مسئلہ ہے، جس پر بھارت قابض ہے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔