کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں ہمسایہ ملک چین کے تجربات اور ان تجربات کی کامیابیوں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے اور ایسا بھی نہیں کہ دنیا اس بات کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوئے بے خبر ہو۔ چین کی علاج گاہوں اور طب کے شعبے میں تحقیق کرنےوالی جامعات کےساتھ پاکستانی ماہرین کی بات چیت کے جاری سلسلوں کے دوران جب ایک موقع پر یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ 14 ہفتوں کے دوران چین میں کورونا وائرس سے طبی یا معاون عملے کا ایک رکن بھی متاثر نہیں ہو رہا تو پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں کی جانب سے یہ بات بار بار پوچھی گئی تاکہ پوری طرح وضاحت ہو سکے کہ آخر وہ کونسے اقدامات و انتظامات تھے جن کی وجہ سے چین میں نہ صرف کورونا وائرس کے نئے کیسز رپورٹ ہونے کی شرح کئی شہروں میں بالکل ختم ہو چکی ہے بلکہ وہاں طبی و معاون طبی عملہ باوجود کورونا وائرس کا علاج معالجہ اور اس پر تحقیق کر رہا ہے لیکن وہ بھی متاثر نہیں ہو رہا۔ جواباً معلوم ہوا کہ چینی حکومت نے طبی عملے کو صرف ماسک اور حفاظتی لباس ہی فراہم نہیں کئے بلکہ طبی عملے کو ان کے درست استعمال بارے تربیت بھی دی اور یہی مختلف حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی‘ چین میں کورونا وائرس سے پیدا ہونےوالی صورتحال کا پاکستان سے موازنہ کریں تو کسی ایک بھی شعبے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ پاکستان کی فیصلہ سازی‘علاج معالجہ اور سماجی زندگی الجھ چکے ہیں۔ کسی ایک بھی فریق کو دوسرے کی بات پر یقین نہیں نہ ہی فریقین کی کوششیں چاہے کو سماجی دوری اختیار کرنے سے متعلق ہوں یا علاج معالجے اور حفاظتی تدابیر کی صورت عام ہوں لیکن ان میں یقین کا فقدان پایا جاتا ہے‘ سب تجربات سے گزر رہے ہیں اور سبھی اپنی اپنی جگہ تجربات کر رہے ہیں۔
گھریلو ٹوٹکے اپنی جگہ تجربہ ہیں کیونکہ ہاتھ پاو¿ں مارنے کی کوئی دوسری صورت نہیں!درحقیقت پاکستان کو دو قسم کے ہنگامی حالات سے واسطہ ہے ایک ہنگامی حالت کورونا وائرس کی پراسرار فطرت اور دوسری اس کے پھیلنے کی وجہ سے مسلط ہے اور یہی وجہ ہے کہ جنہیں حالت سکون اور سب سے زیادہ محفوظ ہونا چاہئے تھا وہ بھی غیریقینی کا شکار ہیں اور بڑی تعداد میں کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں‘ ناخواندگی کا مظہر یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں ہنگامی حالات میں پرسکون نہیں بلکہ ہنگامی ردعمل دیکھنے میں آتے ہیں!اب تک کے حقائق‘ واقعات اور سانحات سے معلوم ہو چکا ہے کہ صرف ماسک اور خصوصی لباس ہی کافی نہیں لیکن طبی عملے کو تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے اور اسی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کو ملک کے چاروں صوبوں سے یہ امتیاز حاصل کیا ہے کہ یہاں طبی عملے اور بالخصوص نجی ہسپتالوں میں کام کرنےوالے طبی عملے کو کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے کےلئے احتیاطی تدابیر سے متعلق تربیت دی جائے گی‘ ماسک سمیت حفاظتی لباس و دیگر ضروریات پہننے کا درست طریقہ کیا ہے اور کورونا کےلئے خصوصی وارڈز میں تعینات عملے کو کون کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئےں؟۔
خیبرپختونخوا ہیلتھ کیئر کمیشن طبی عملے کو بتائے گا۔ اس تربیت کے خدوخال میں جہاں سماجی فاصلہ مختلف‘ تراکیب‘ طریقوں اور تدابیر پر درست انداز میں عملدرآمد سے متعلق اسباق تربیتی نصاب میں شامل کئے گئے ہیں‘ وہیں جملہ وبائی امراض سے بچنے کےلئے عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہاتھ دھونے‘ سینی ٹائزکرنے اور بالخصوص ماسک کے صحیح استعمال کے بارے عملاً تربیت دی جائے گی‘ابتدا میں تربیت کےلئے خیبر پختونخوا کے 5 اضلاع(مردان‘ بونیر‘ چارسدہ‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور لوئر کرم)کا انتخاب کیا گیا ہے جبکہ ضرورت دیگر تمام اضلاع میں بھی اس قسم کی تربیت دینے کی ہے کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے‘ اگر کورونا وائرس پاکستان میں پھیل نہ چکا ہوتا تو تربیت مرحلہ وار انداز میں مکمل کی جاتی لیکن اب چونکہ اس وبا کے پھیلنے کا عمل تیزی اختیار کر چکا ہے اور پشاور جیسے مرکزی شہر میں تو آو¿ٹ آف کنٹرول ہو چکا ہے تو اگر تربیت کی ضرورت ہے جو کہ ہے تو یہ نپی تلی نہیں بلکہ اندھا دھند ہونی چاہئے ‘وفاقی اور صوبائی سطح پر فیصلہ ساز جہاں انٹرنیٹ کے ذریعے کانفرنسیں معمول کے مطابق کرتے ہیں اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کےلئے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح اگر انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے بیک وقت تربیتی عمل کی مشقیں سرانجام دی جائیں اور ویڈیوز کے ذریعے حفاظت سے متعلق طب کے تربیتی نصاب کو مشقوں میں تقسیم کر کے ہر باب کی ویڈیو بنادی جائے اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا دیا جائے تو صرف سرکاری و نجی ہسپتالوں کے معالجین ہی فائدہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ گھروں میں قرنطین ہوئے کورونا وائرس کے متاثرین اور ان کے تیمارداروں کو بھی رہنمائی ملے گی۔