چین اور بھارت کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ کے نتیجے میں کم از کم 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر رونما ہوا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان کئی ہفتوں سے سرحد پر تناؤ جاری ہے اور فریقین کی جانب سے اضافے دستے سرحد پر تعینات کردیے گئے تھے۔
ابتدائی طور پر بھارت کی جانب سے ایک افسر سمیت تین فوجیوں کی ہلاکت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعدازاں بھارتی فوج نے 20فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔ یہ جوہری طاقت کے حامل دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں کا سب سے بڑا خونی تسادم ہے کیونکہ اس سے قبل دونوں کے درمیان تنازع میں کبھی کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔
بھارتی فوج کی جانب سے منگل کو جاری بیان میں کہا گیا کہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران زخمی ہونے والے 17 مزید فوجی انتہائی اونچائی پر شدید ٹھنڈ کی وجہ سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے جس ے بعد مرنے والے فوجیوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے۔ بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ واقعہ تبت کے عین سامنے واقع لداخ کے علاقے میں وادی گلوان میں پیش آیا۔
ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر جوہری طاقت کے حامل دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان مستقل بنیادوں پر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، یہاں باقاعدہ طور پر سرحد پر حد بندی نہیں کی گئی لیکن کئی دہائیوں سے یہاں ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔ اس سے قبل بھارتی فوج کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف اموات ہوئی ہیں لیکن چین نے کسی بھی اہلکار کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تصدیق نہیں کی اور پورا الزام بھارت پر عائد کیا تھا۔
بھارتی فوج کے ترجمان نے کہا تھا پیر کی رات پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں دونوں طرف جانی نقصان ہوا، بھارتی فوج کو ایک افسر اور دو سپاہیوں کا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ ترجمان نے کہا تھا کہ دونوں فریقین کی سینئر فوجی قیادت اس وقت موقع پر موجود ہے تاکہ صورتحال کے تناؤ میں کمی لائی جا سکے۔
علاقے میں تعینات ایک بھارتی افسر نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہاں فائرنگ بالکل نہیں ہوئی اور مرنے والے بھارتی افسر کرنل تھے۔ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ کوئی فائرنگ نہیں کی گئی، کسی قسم کا اسلحہ استعمال نہیں کیا گیا، یہ پرتشدد جھڑپیں ہاتھوں سے ہوئیں۔
دوسری جانب چین نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بھارت پر سرحد پار کر کے چینی اہلکاروں پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا تھا کہ بھارتی فوجی دستوں نے دو مرتبہ سرحد پار کی، اشتعال انگیزی کی اور چینی اہلکاروں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کی سرحدی افواج کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔
واضح رہے کہ مئی سے اب تک جوہری طاقت کے حامل ملکوں کے درمیان جاری تناؤ میں ہزاروں فوجی دستے آمنے سامنے آ چکے ہیں جس پر ماہرین نے انتباہ جاری کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی محاذ آرائی خطے میں ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
9مئی کو بھارتی اور چینی فوجی اہلکاروں کے درمیان جھڑپ میں ہاتھا پائی ہوئی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا تھا جس سے کئی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ چینی وزارت خارجہ نے گزشتہ ہفتے ہی بیان میں کہا تھا کہ سفارتی اور فوجی ذرائع کے ذریعے موثر روابط کی بدولت حالیہ سرحدی تنازع حل کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے ۔ بعدازاں بھارتی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صورتحال کے حل اور سرحدی علاقوں میں امن یقینی بنانے کے لیے فریقین موثر فوجی اور سفارتی رابطے جاری رکھیں گے۔
لیکن ذرائع اور بھارتی خبر رساں ادارے اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے حالیہ ہفتوں میں جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، بھارت نے ہار مانتے ہوئے انہیں چین کو ہی دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی کی جانب سے جن علاقوں پر قبضہ کیا گیا ہے ان علاقوں میں شمال میں پین گونگ تسو جھیل اور اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل وادی گلوان کا اہم علاقہ بھی شامل ہے۔