پشاور پریس کلب کے سامنے اِحتجاجی مظاہروں کا سلسلہ یوں تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن موسم گرما کی حبس‘ چلچلاتی دھوپ میں ننگے سر اور بنا قمیض پہنے پسینے سے شرابور مظاہرین کے سرخ و سفید دمکتے چہروں پر غم و غصہ آخری مرتبہ کب دیکھنے میں آیا تھا‘ یہ صحیح سے یاد نہیں۔ مذکورہ مظاہرہ پشاور کے تن سازوں (باڈی بلڈرز) کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے کیا گیا‘ جنہوں نے انوکھا طرز عمل اختیار کیا کہ سرعام (لب سڑک) باڈی بلڈنگ کا مظاہرہ شروع کرنے لگے اور اپنی قمیضیں اُتار کر جسمانی طاقت‘ خوبصورتی اور تن سازی میں کی گئی محنت بھی مطالبات کے ساتھ صوبائی فیصلہ سازوں کے سامنے رکھ دی۔ بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے پشاور کے باڈی بلڈنگ کلب گزشتہ چار ماہ سے بند ہیں‘ جن کے ماہانہ کرائے اور دیگر اخراجات کے علاوہ ملازمین کی تنخواہیں‘ یوٹیلٹی بلز اور دیگر مالی ذمہ داریوں کی ادائیگی ممکن نہیں رہی اور اگر صوبائی حکومت نے سماجی دوری سے متعلق قواعد (SOPs) کے تحت اِن کسرت کے مراکز کو اپنی کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت نہ دی تو یہ مذکورہ کلب کا معاشی قتل ہونے کے ساتھ اِن سے وابستہ نوجوانوں کو میسر صحت مند سرگرمیوں کے مواقع بھی جاتے رہیں گے۔ ذہن نشین رہے کہ بنا برقی و نیم خودکار آلات پر مشتمل کسی ایک باڈی بلڈنگ کلب کو بنانے کے لئے کم سے کم دس سے پندرہ لاکھ روپے جبکہ برقی اور خودکار آلات پر مشتمل کلب بنانے پر پچاس لاکھ سے پانچ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے لیکن اصل سرمایہ کاری مالی نہیں ہوتی بلکہ اِن کلبز کے اراکین کی ہوتی ہے۔
جن پر نہ صرف تن سازی کے شائقین خود بلکہ کلبز کی جانب سے بھی خوراک اور مشقت کی صورت وقت اور مالی سرمایہ کاری کی جاتی ہیں اور کلبوں کے درمیان ہونے والے مقابلوں کےلئے سارا سال تیاریاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ عمومی کلب کی ماہانہ رکنیت فیس 500 سے 5000روپے تک (حسب سہولیات) ہوتی ہے جبکہ اندرون شہر (گلی محلوں کی سطح پر) باڈی بلڈنگ کلبس کی رکنیت (داخلہ) اور ماہانہ فیس چند سو روپے ہوتی ہے‘ جن سے بمشکل ماہانہ کرایہ‘ بجلی کے بل‘ صفائی‘ رنگ روغن اور دیگر اخراجات اَدا ہوتے ہیں۔ وہ سبھی باڈی بلڈنگ کلب جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار تھے اور جن کے اراکین کی تعداد بھی ہر دن کم ہو رہی ہے کیونکہ فی زمانہ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ نوجوانوں کو انٹرنیٹ‘ موبائل فونز اور ٹیلی ویژن سے فرصت نہیں جبکہ بچے ہوں یا بڑے اُن کی صحت مند زندگی (فکروعمل) کا انحصار والدین کی تربیت پر ہوتا ہے۔ جن بچوں کو اپنے والدین سے صبح کی سیر‘ نماز کی پابندی اور ورزش کے معمولات جیسی عادات ملتی ہیں‘ وہی پیشہ ورانہ تربیتی مراکز (باڈی بلڈنگ کلبس) سے رجوع کرتے ہیں اور آج کی تاریخ میں ایسے والدین کا شمار اُنگلیوں پر کیا جا سکتا ہے ۔
جو بچوں کی تعلیمی کارکردگی کی طرح اُن کی جسمانی و ذہنی صحت کی مضبوطی کو ضروری سمجھتے ہوں۔یادش بخیر 18مارچ 2019ءکے روز پشاور سے تعلق رکھنے والے 2 تن سازوں (باڈی بلڈرز) نے صوبائی مقابلوں میں اِمتیازی پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔ شفیع کو ’مسٹر خیبرپختونخوا‘ اور داو¿د خان کو اِنتہائی سخت مقابلے کے بعد مسٹر جونیئر خیبرپختونخوا قرار دیا گیا تھا۔ یہ مقابلے ضلعی حکومت نے خیبرپختونخوا باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن اور ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس خیبرپختونخوا کے تعاون سے منعقد کئے تھے۔ مقابلوں کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اِس موقع پر ’نیشنل باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ‘ مقابلے (لاہور) جیتنے والے وسیم بھی موجود تھے جنہیں ’مسٹر سپر خیبرپختونخوا‘ قرار دیا گیا تھا۔ اِن سبھی کامیاب کھلاڑیوں میں وفاقی وزیر برائے مذہبی اَمور نورالحق قادری اور جنوب ایشیا کے مستند تن ساز اِعجاز نے ایک ایک لاکھ روپے اور ایک ایک موٹرسائیکل بطور حوصلہ اَفزائی (اِنعام) تقسیم کئے تھے لیکن اَصل اِعزاز تو یہی ہے کہ صرف خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کے مابین مقابلے ہی میں نہیں بلکہ قومی اور جنوب ایشیا کی سطح پر بھی بڑے اعزازات پشاور کے تن سازوں نے اپنے نام کر رکھے ہیں اور باڈی بلڈنگ کے مقابلوں کا انعقاد کہیں بھی ہو‘ اُن میں پشاور اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی کرنےوالے نمایاں رہتے ہیں لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ مہنگائی کے دور میں اپنی مدد آپ کے تحت تن سازی کرنے والوں کی اکثریت کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ایک دن کی خوراک کھا سکیں۔ مالی وسائل کی کمی آڑے آنے کی وجہ سے کئی کھلاڑی خوراک کی بجائے ادویات کا سہارا لیتے ہیں‘ جس سے اُنہیں نسبتاً کم قیمت میں وقتی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن یہ پائیدار طریقہ نہیں۔