بڑھتی بیروزگاری

 کورونا وبا کے تناظر میں سماجی اور کاروباری سرگرمیوں کو محتاط رہتے ہوئے جاری رکھنے کی ہر کوشش ناکام ہو رہی ہے‘ حکومت نے التجاو¿ں اور تعاون کی درخواستوں کے بعد آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں اور ملک کے کم سے کم 20 ایسے شہروں بشمول مردان اور پشاور کی نشاندہی کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں سمارٹ لاک ڈاو¿ن جبکہ دوسرے مرحلے میں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے‘ ذہن نشین رہے کہ یہ اعلان صرف انتہائی متاثرہ علاقوں کےلئے ہے تاہم کورونا وبا سے ملک کا ہر حصہ اور علاقہ متاثر ہے کیونکہ اس نے بڑے پیمانے پر بیروزگاری کو جنم دیا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف خود حکومتی دستاویزات سے بھی عیاں ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2020-21ءکے دوران ملک میں بےروزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 5ہزار تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ رواں ماہ کے اختتام تک ایسے افراد کی تعداد اٹھاون لاکھ تھی‘حکومت نے اگرچہ کم تعداد میں بیروزگاری بڑھنے کو تسلیم کیا ہے لیکن بیروزگاروں میں 8 لاکھ افراد کا اضافہ قطعی غیرمعمولی ہے!حسب سابق وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کےلئے سالانہ حکمت عملی وضع کی ہے‘ جسکے ابتدایئے میں بیان کردہ حقائق کے مطابق پاکستان محنت کش افرادی قوت کے لحاظ سے دنیا کا 9واں بڑا ملک ہے اور یہاں ملازمتی مواقعوں میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے‘اندازہ ہے کہ پاکستان میں ملازمت یافتہ افراد کی تعدادآئندہ مالی سال میں 6کروڑ 92 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی جو گزشتہ مالی سال میں چھ کروڑ اکیس لاکھ رہی‘لیبر فورس سروے کے بقول آئندہ سال میں بےروزگاری کی شرح ساڑھے نو فیصد سے زیادہ رہے گی۔

 لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں بےروزگار تعلیم یافتہ افراد خصوصاً ڈگری رکھنے والے بےروزگار افراد کی تعداد میں اضافے کا رجحان دیکھا جارہا ہے‘ڈگری رکھنے والوں میں بےروزگاری کی شرح دیگر مجموعی طور پر بےروزگار افراد کے مقابلے میں قریب تین گنا زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دی جانےوالی تعلیم اور نئے تعلیم یافتہ افراد کو جذب کرنے کی معیشت کی ضرورت کے درمیان مطابقت نہیں ہے‘ ہمارا تعلیمی نظام مسلسل ایسی افرادی قوت فراہم کر رہا ہے‘ جن کا عملی زندگی اور مارکیٹ کی ضروریات سے تعلق نہیں ہوتا‘ضرورت اس امر کی ہے اور یہ بات حکومت کےلئے بڑا چیلنج ہے کہ تعلیم و تحقیق کے موجودہ نظام کو عملی زندگی و ضروریات سے مطابق کیسے کیا جائے۔لیبر فورس سروے کا یہ پہلو اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ بےروزگاری کی شرح مردوں کے مقابلے خواتین میں زیادہ ہے جو بالترتیب 8.27 فیصد اور 5.07فیصد بیان کی گئی ہے جبکہ اوسطاً بیروزگاری کی شرح کے مقابلے نوجوانوں میں بےروزگاری کافی زیادہ ہے اور سب سے زیادہ شرح بیس سے چوبیس سال کی عمر والے افراد ہیں پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کی کل آبادی کا 80فیصد سے زیادہ نوجوانوںپرمشتمل ہے‘ ذہن نشین رہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی اکیس کروڑ نو لاکھ سے زیادہ ہے اور آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے اسکا اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 2030ءتک پاکستان کی آبادی اٹھائیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

 فی الوقت آبادی کا تیرسٹھ فیصد 30 سال سے کم ہے!نوجوانوں کو روزگار کےلئے درست شعبوں میں‘ درست مہارتوں سے لیس کرنا قومی معاشی لحاظ سے بھی معنی رکھتا ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں نوجوانوں کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ‘ برسرروزگار یا خاطرخواہ تربیت یافتہ نہیں ہے‘ یہ کہنا کہ پاکستان کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوان ہیں اسوقت قابل فخر ہوگا جب ملک کا ہر نوجوان برسرروزگار ہو جائے اور اس قدر افرادی قوت سے پاکستان کا پیداواری شعبہ ترقی کرتا چلا جائے۔ پاکستان کے خصوصی تکنیکی‘ پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبوں میں داخلے کے مواقع بھی کم ہیں فنی تعلیم و تربیت کی طلب موجود ہے‘ پاکستان کو صرف تعلیم کی ضرورت ہے ایسا نہیں بلکہ پاکستان کو فنی تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ صرف یہی حکمت عملی نوجوانوں کےلئے روزگار اور ان کی صلاحیتوں کے فرق پر نمایاں اثرات مرتب کرنے کا باعث ہو سکتی ہے لہٰذا تعلیم اور ملازمت کے مابین ایک متحرک رشتہ برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے‘ اگر حکومتی اقدامات کو افرادی قوت کی فنی و تکنیکی تربیت سے مشروط اور وابستہ نہ کیا گیا تو نئے ملازمتی مواقع پیدا ہونا تو دور کی بات موجودہ ملازمتی مواقعوں میں بھی معاشی مندی کے باعث کمی ہوتی چلی جائے گی‘وقت ہے کہ غیررواےتی شعبوں میں روزگار کے مواقعوں پر توجہ دی جائے‘ جو دنیا کے کئی ممالک میں لاک ڈاو¿ن کے منفی اثرات کم کرنے کا مجرب‘آزمودہ اور کامیاب طریقہ ہے۔