بچوں کی تربیت

 ’ارے یہ کیسے بیٹھے ہو‘ ٹھیک سے بیٹھا کرو‘ ایسا مت کھاﺅ ‘ چمچ ٹھیک سے پکڑو‘ ’پیر مت ہلاﺅ‘ منہ میں انگلی مت ڈالو‘ ’الٹا جواب بہت دینے لگے ہ‘ ’اتنا زور سے مت بولو‘ ’چلو اٹھو ابھی‘ ابھی بیٹھ جاﺅ‘ ’جیسا کہا ہے ویسا کرو‘ بغیر سوال کئے‘ اس طرح کی تمام ہدایتیں ہم اور آپ اکثر اپنے بچوں کو دیتے ہیں تاکہ وہ اچھی باتیں سیکھیں اور نظم و ضبط کے پابند بنیں‘ لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ نظم و ضبط کی بھی ایک حد ہونی چاہئے؟ ممکن ہے بچے آپ کی بات مانتے ہیں مگر وہ یہ سب ڈر کی وجہ سے کرتے ہیں نا کہ نظم و ضبط کے پابند بنتے ہیں۔ جی ہاں! متعدد تحقیقی رپورٹوں سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اوور ڈسپلن بچوں میں الگ طرح کے ڈراور گھبراہٹ کو جنم دیتا ہے۔ ڈسپلن کا مطلب بچے کو بہتر انسان بنانا اور اس میں ضروری صلاحیتیں اور عادتیں پروان چڑھانا نہ کہ بچے کو کنٹرول کرنا۔ ضرورت سے زیادہ سختی کرنے پر بچے کے دل میں آپ کےلئے ڈر پیدا کرے گا‘ وہ ہر بات یہ سوچ کے کرے گا کہ امی ابو کہیں برا نہ مان جائےں‘ وہ صرف آپ لوگوں کو خوش کرنے کےلئے توجہ دے گا جس سے اس کی نشوونما بہتر انداز میں نہیں ہو پائے گی‘ بچوں کو نظم وضبط کاپابند بنانے کےلئے کی جانے والی بے جا سختی کے سبب بچہ تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے‘ یعنی اگر آپ اس کو ہر چھوٹی بڑی بات پر ٹوکنے لگےں گے تو اس کو سمجھ ہی نہیں آئے گا کہ آخر کون سا رویہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔ بہتر ہوگا کہ آپ یہ طے کریں کہ کس بات پر واقعی ٹوکنا اور کس بات کو نادانی سمجھ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے‘۔

ورنہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ بچہ آپ کی باتوں کو اہمیت ہی نہیں دے گا کہ ان کی عادت ہی ہے ہر بات پر ٹوکنے کی اورہمارے ہاں عام پر طور ایسا ہورہاہے جس سے پھرمسائل بڑھتے جارہے ہیں آپ یہ کبھی نہ بھولیں کہ بچے آپ کو دیکھ کر ہی زیادہ سیکھتے ہیں‘ بجائے آپ کی نصیحتوں کے اگریہ کہاجائے کہ بچے اسی فیصد آپ کے عمل اور صرف بیس فیصد نصیحت سے سیکھتے ہیں تو غلط نہ ہوگا آپ ان کے پہلے رول ماڈل ہوتے ہیں اگرآپ خود اپنا رویہ کنٹرول میں نہیں رکھ پائےںگے تو بچے سے امید مت رکھئے گا کہ وہ آپ کی بات مانے گا۔آپ کا اوور ڈسپلن صرف ان کے دل میں کنفیوژن پیدا کرکے انہیں باغی ہی بنائے گا اور وہ آپ پر بھروسہ بھی کم کریں گے‘ اس کے علاوہ وہ آپ سے اپنے دل کی باتیں شیئر کرنے سے بھی ہچکچائیں گے‘ غیر ضروری روک ٹوک اور بندشیں بچوں کی برداشت کرنے کی صلاحیت کو کم کرتی جاتی ہےں اور وہ آگے چل کر غصیلے مزاج کے انسان بن جاتے ہیں۔بچپن میں اپنے والدین کے ذریعے سٹرکٹ ڈسپلن(نظم و ضبط کی بے جا سختی) میں پرورش پانے والے بچے اسی سوچ کےساتھ آگے بڑھتے ہیں کہ پاور فل شخص ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ بھیڑ کا حصہ بنتے جاتے ہیں اور کسی بات کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتے‘ وہ صرف دوسرے کی بات قبول کرتے ہیں‘ یہ تمام باتیں انہیں ڈرپوک اور غیر ذمہ داربناتی ہیں۔بچپن سے آپ ہی ان کےلئے سارے فیصلے کرتے آئے ہیں تو ان میں وہ ہنر ہی پروان نہیں چڑھ پاتا کہ وہ خودمختار بنیں اور خود کوئی فیصلہ کرسکیں۔ انہیں ہمیشہ یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کا فیصلہ غلط ہوگیا تو کیاہوگا یوںآپ کے بچے آپ سے کھل کر بات نہیں کر پائیں گے۔

 نہ آپ سے گھل مل پائیں گے نہ ہی آپ کےساتھ دوستانہ رشتہ استوار کر پائیں گے جس سے آپ لوگوں کے درمیان ہمیشہ ایک دوری قائم رہے گی اور اس دوری کے درمیان میں ہوگا تو صرف ڈر‘ نہ توآپ اور نہ ہی آپ کے بچے ایک عام والدین اور بچے کے درمیان رشتے کو محسوس کرسکیں گے وہ سہما ہوا سا رشتہ ہوگا جو بچوں کو غلط راستے پر بھٹکا بھی سکتا ہے کیونکہ آپ اپنے بچوں کا بھروسہ جیتا ہی نہیں کبھی۔ بہتر ہوگا کہ بچوں کو اپنی بات کہنے اور سیکھنے کا صحیح وقت اور طریقہ انتخاب کرنے دیں۔سب کے سامنے انہیں ڈانٹنے یا ٹوکنے سے بہتر ہے کہ اکیلے میں سمجھائیں‘ بچوں کو ہمیشہ حوصلہ دیں اور ان سے اس طرح کے جملے ہمیشہ کہیں کہ ڈرنے کی بات نہیں‘ ہم ہمیشہ تمہارے ساتھ ہےں‘اس بار نہیں ہوا تو کیا ہوا گلی بار کوشش کرنا‘ اچھا برتاﺅ کرنے پر بچوں کی تعریف کریں‘کچھ جگہوں پر کبھی کبھی سختی بھی ضروری ہوتی ہے‘بچہ بہت ضدی ہو تو تھوڑا سخت ہونا پڑتا ہے‘بدقسمتی سے ہم نے آج تربیت ہی کے خانے کو خالی چھوڑ دیاہے جس کے بعد بچے پھر اپنی مرضی سے اس میں رنگ بھرنے لگتے ہیں جس سے پھر پوراخاکہ تباہ ہوجاتاہے اسلئے اچھی تربیت کےلئے پہلے اپنی تھوڑی سی تربیت ضرور کی جانی چاہئے۔