بےروزگاری‘مالی خسارے‘بیماری‘ناانصافی اور زیادتی کی وجہ سے ہمارے اردگرد بیشمار لوگ مایوسی‘ پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہےں ‘ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ڈپریشن کو کوئی بیماری یا مسئلہ ہی نہےں سمجھا جاتا لیکن بہت سے ناخوشگوار واقعات اسی ڈپریشن کی وجہ سے رونما ہوتے ہےں گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر اےک بحث چھڑی تھی اور پڑھے لکھے لوگوں نے ڈپریشن کو دیگر بیماریوں سے زیادہ مہلک قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ کسی بھی وجہ سے اگر آپ کے گھر والے‘ پیارے‘ دوست یا اردگرد کے لوگ تنہائی میں چلے جائیں کم بولنے اور کم مسکرانے لگیں الجھے اور پریشان لگیں تو ہم سب کا فرض ہے کہ ان کی مدد کریں ان کو وقت دیں ان کو مایوسی کے اندھیروں سے واپس لائیں‘معلوم کریں اگر ان کو کوئی مدد کی ضرورت ہو اور آپ کے بس میں ہو تو ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس میں مدد دیں ‘ان کو خوش رکھنے کی کوشش کریں ماحول بدلنے کےلئے ان کو گھر اور کمرے سے باہر نکالیں‘عبادت اور ذکر کی طرف راغب کریں‘یہ نہ صرف ہمارا بحیثیت انسان فرض ہے بلکہ خدا کے ہاں اس کا بڑا اجر ہے اور مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہوئے کسی کے کام نہ آنا ان کا حق ادا نہ کرنا ہے‘موجودہ جو حالات چل رہے ہےں ہر طرف کورونا وائرس کی وجہ سے جانیں جارہی ہےں‘بیمار افراد کی تعداد میں روز بروز خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے‘لاک ڈاﺅن یا سمارٹ لاک ڈاﺅن کی وجہ سے ہزاروں کاروبار ٹھپ ہےں‘لاکھوں افراد یا تو روزگارکھوچکے ہےں یا حالات کی وجہ سے روزمرہ کے اخراجات پورے نہےں کر پا رہے۔
ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے کہ جن افراد کے کاروبار قائم ہےں یا جن کی مالی حالت مستحکم ہے وہ ان تمام افراد کا خیال رکھےں جو ان کے اردگرد رہتے ہےں اور جن کو مدد کی ضرورت ہے مگر ہمارے ہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہے‘وائرس کے ملک میں آتے ہی جن کے ہاتھ میں جو کچھ تھا اس سے کئی گنا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ادویات ‘ماسک‘سینی ٹائزر‘ آکسیجن‘ پٹرول‘ آٹا‘ چینی‘دالیں سب کچھ کئی گنا مہنگا ہوگیا ‘ماسک رول تو ناپید ہوگئے اگر کہےں مل بھی رہے ہےں تو ڈیڑھ سو روپے والا پیکٹ اب ہزار بارہ سو کا مل رہا ہے ‘ ایک وقت میں اس کی قیمت1800تک چلی گئی تھی‘ جن ادویات کے بارے میںکہاگیا کہ وہ کورونا سے بیمار افراد کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہےں اول تو وہ ناپید ہوگئیں اب مل رہی ہےں مگر کئی گنا اضافے کےساتھ‘ جن مریضوں کی زندگی بچانے کےلئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے ان کےلئے آکسیجن کی قیمت کئی گنا کردی گئی یعنی ہم آخری سانس لینے والوں سے بھی کمانا چاہتے ہےں کیونکہ ناجائز منافع کے آگے انسانیت شکست کھاگئی ہے‘جان بچانے والے انجکشن کئی ہزار روپے مہنگے ہوگئے ہےں‘نجی ہسپتالوں نے کمرے کے روزانہ کے نرخ کئی گنا بڑھا دیئے ہےں تاکہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاسکیں ان حالات میں حکومت کی عملداری کہےں نظر نہےں آرہی‘ حکومت اور اس کے تمام ادارے ان ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کےخلاف اقدامات میں ناکام ہوچکے ہےں‘میڈیا اور سوشل میڈیا پر تو ہر روز بیشمار افراد کےخلاف کاروائی کا شوشا چھوڑا جاتا ہے۔
مگر حقیقت کیا ہے یہ ہسپتال میڈیکل سٹور اور بازار جاکر ہی معلوم ہوجاتا ہے‘ان حالات میں نہ صرف منافع خور اور ذخیرہ اندوز کسی کی جان جانے کے ذمہ دار ہےں بلکہ حکومت اور انتظامیہ بھی برابر کے مجرم ہےں ‘ ادویات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پٹرول کی فراہمی کے معاملے میں بھی حکومت ناکام ہے‘عالمی منڈی میں جہاںخریدار نہ ہونے کی وجہ سے پٹرول کی قیمت کم ترین سطح پر آگئی ہمارے ہاں قیمتوں میں کمی کے اعلان کے بعد پٹرول ناپید ہوگیا ہر پمپ کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں‘ کئی جگہ پٹرول 150 اور 180 روپے فی لٹر فروخت ہوا‘ پمپ مالکان کے مطابق انہےں پٹرول مل نہےں رہا توکیسے فروخت کریں‘آٹا اور چینی پہلے سے مہنگی ہوچکی ہےں دالوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے‘ رامپورہ جیسی مارکیٹ میں لوگوں نے لاک ڈاﺅن کے آغاز سے عوام کو دونوں ہاتھوںسے لوٹنا شروع کیا ہے اس ساری صورتحال میں حکومت کی ناکامی اور اداروں کی نااہلی سامنے ہے‘اس صورتحال کی وجہ سے عام آدمی سب سے زیادہ متاثرہے‘کئی اساتذہ اور دیگر نجی اداروں کے افراد کے بارے میں سنا کہ انہوں نے تنخواہےں نہ ملنے پر پھلوں ‘سبزی اور برگر شامی کباب کے سٹال لگالئے ہےں ‘کئی لوگ مقروض ہوگئے ہےں بہت سے لوگ اپنے بال بچوں کے اخراجات پورے نہ کرسکنے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوچکے ہےں یقینا یہ حالات مشکل نہےں اور جلد بہتری آئے گی مگر بحیثیت انسان اور مسلمان ہمارا اس وقت اولین فریضہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا ساتھ دیں ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کو امید دیں کہ یہ وقت بھی گذر جائے گا ۔