سیکرٹری جنرل کااعتراف

 آخر کار عالمی ادارے کو مظلوم کشمیری عوام کے دکھوں کا احساس ہوہی گیا‘اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے بچوں پر جاری مظالم ‘چھرے والی بندوق کے استعمال اور انہیں غیرقانونی طورپر زیرحراست رکھنے پر گہری تشویش ظاہر کی ہے‘سیکرٹری جنرل نے بھارت کی مودی سرکار پر زوردیا کہ فوری طور پر ایسی کاروائیاں ختم کرے‘ان کا کہنا تھا کہ رات کے چھاپوں کے دوران بچوں کی گرفتاری‘ انہیں فوجی کیمپوں میں رکھنے‘ دوران حراست تشدد‘ کسی الزام اور قانونی کاروائی کے بغیر قید کرنے سے متعلق انہیں سخت تشویش ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونےوالی زیادہ تر شہادتیں دوران حراست تشدد‘فائرنگ اور چھرے والی بندوق کے استعمال کے نتیجے میں ہوئیں‘ مقبوضہعلاقے میں صورتحال معمول پر لانے کے بھارتی جھوٹے بیانیے غلط ثابت ہوئے ہیں‘عالمی ادارے کی سروے رپورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی مسلمہ بین الاقوامی قوانین کی پامالی‘ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا ہے‘اقوام متحدہ کے سربراہ کا بیان اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مقبوضہ کشمیرکو اپنا داخلی معاملہ قرار دینے کا بھارتی پروپیگنڈہ اب بے اثر ہورہا ہے اور عالمی ادارے کو احساس ہونے لگا ہے کہ اس کی لاپرواہی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کےلئے کتنا بھاری ثابت ہوا ہے‘ اقوام متحدہ اگر 1948میں ہی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرواتی تو جنوبی ایشیاءکے ممالک کو اپنی سکیورٹی کے نام پر اسلحہ کے انبار لگانے کی ضرورت نہ پڑتی۔

 اس خطے کے وسائل جنگی طیاروں‘ میزائلوں‘آبدوزوں اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر ضائع نہ ہوتے ۔ان وسائل کو انسانی ترقی کےلئے بروئے کار لایاجاتا‘اگر یہاں کے وسائل صحت‘ تعلیم اور انسانی ترقی کے منصوبوں پر خرچ ہوتے تو غربت‘ناخواندگی اور بےروزگاری کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 72سال قبل یہ قرارداد منظور کی تھی کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہئے‘لیکن عالمی ادارے کے پاس اپنی قراردادوں اور فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کےلئے کوئی فورس موجود نہیں ‘بڑی طاقتیں اقوام متحدہ کے فیصلوں پر عملدرآمد میں مدد اور تعاون اس صورت میں کرتی ہیں جب انہیں اس کام میں اپنا ذاتی سیاسی‘ سفارتی اور تجارتی مفادنظر آتا ہے‘ امریکہ‘ روس‘ چین‘برطانیہ‘ جرمنی اور فرانس کو اپنے جنگی طیارے‘ بحری بیڑے‘ آبدوزیں‘ تباہ کن ہتھیار‘ میزائل اور گولہ بارود فروخت کرنا ہوتا ہے جس کےلئے ترقی پذیر ممالک کے درمیان کشیدگی اور تناﺅ پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ متحارب ممالک کو ہمیشہ جدید ترین ہتھیاروں کی ضرورت رہے اور ہتھیار بنانے والے ممالک کا کاروبار چلتا رہے‘سلامتی کونسل کے مستقل ممبران بھی اسی لالچ میں مبتلا تھے وہ چاہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کبھی ختم نہ ہو۔

لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ہر وقت موجود رہتے ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر طاقت کے بل پر قبضہ جما رکھا ہے بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں موجود ہے پوری وادی کو عملاً فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کیا گیا ہے‘ عالمی برادری سے مایوس ہوکر جب کشمیریوں نے حق خود ارادیت کے حصول کےلئے مسلح جدوجہد شروع کی تو بھارتی فوج ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی‘ اب تک 90ہزار کشمیری آزادی کی جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں ہزاروں خواتین کے سہاگ اجڑ چکے ہیں ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں اور ہزاروں ماﺅں کی گودیں اجڑچکی ہیں۔اقوام عالم کو بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی زبوں حالی کا بخوبی علم ہے مگر چونکہ بھارت سوا ارب لوگوں کا ملک ہے اور کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کہ کشمیریوں کی خاطر بھارت سے تعلقات خراب کرکے اپنے تجارتی مفادات پر سمجھوتہ کرے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا تازہ بیان اقوام عالم کی آنکھیں کھولنے کےلئے کافی ہے۔ آج کورونا کی عالمی وباءنے ان اقوام کو سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے جو اپنے تباہ کن ہتھیاروں سے دیگر اقوام کو تباہ کرنے کے درپے تھیں عالمی وباءنے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ملکوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اگر وہ اپنے وسائل صحت کی سہولیات اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں بروئے کار لاتے تو آج ایک ان دیکھے وائرس کے ہاتھوں ان کی درگت نہ بنتی۔