کورونا وائرس کی تصدیق کےلئے حکومتی اورنجی لیبارٹریز سے استفادہ کرنےوالوں کو نتائج ملنے میں تاخیر کے علاوہ مذکورہ تجزئیات کے نتائج غلط ہونے سے متعلق بھی شکایات ہیں اور اس سلسلے میں شکوک و شبہات کی تقویت کا باعث وہ واقعات بھی ہیں‘ جن سے متعلق خود حکومتی اہلکار بھی تسلی بخش وضاحت پیش کرنے میں ناکام ہیں جیسا کہ خلیفہ گل نواز ہسپتال بنوں میں قائم لیبارٹری میں 1400 کورونا وائرس کے ٹیسٹ کئے گئے اور سبھی کے سبھی منفی آنے پر طبی ماہرین کی حیرت منطقی تھی۔ غوروخوض کے بعد دوبارہ ٹیسٹ کروائے گئے تو نتیجہ مختلف نکلا اور کم سے کم 300 افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی معلوم ہوئی۔ بات صرف یہ نہیں کہ سرکاری تجزیہ گاہوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے قومی وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے بلکہ اس قسم کے نتائج اور مثالوں سے عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچ رہی ہے‘ جو پہلے ہی سرکاری علاج گاہوںکے معیار سے مطمئن نہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ سرکاری علاج گاہوں میں بہترین ملازمتی اوقات کار کے ساتھ نسبتاً بہتر تنخواہوں اور تاحیات پنشن جیسی مراعات کے باوجود ملازمین ان اداروں کی ساکھ اور کارکردگی کی پرواہ نہیں کرتے۔
بالخصوص جب لیبارٹریوں میں کام کرنےوالے اہلکاروں کی بات کی جائے تو اکثر نے ڈاکٹروں کے نجی کلینکس کی طرح سرکاری ہسپتالوں کے اطراف ہی میں لیبارٹریاں قائم کر رکھی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہسپتال کے اندر تجزیہ گاہ موجودہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر مریضوں کے ذہنوں میں شک ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتر ہوگا کہ ٹیسٹ نجی لیبارٹری سے کروایا جائے اور یہ کہتے ہوئے لیبارٹری کا نام بھی بتاتے ہوئے رہنمائی بھی کر دی جاتی ہے! علاج معالجے کے نام پر ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کے اس گٹھ جوڑ کو جب تک ختم نہیں کیا جاتا اسوقت تک صورتحال میں بہتری نہیں آ سکے گی۔صوبائی دارالحکومت پشاور کی صورتحال یہ ہے کہ 10 روز کے دوران کورونا وائرس کے ٹیسٹ اور نتائج کا انتظار کرنےوالے ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد کی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی محکمہ صحت نے احکامات جاری کئے ہیں کہ لیبارٹریوں کا عملہ موجودہ ہنگامی حالات میں اضافی کام کرے تاہم نجی لیبارٹریوں سے متعلق ان شکایات کے بارے میں فیصلہ ساز خاموش ہیں‘۔
جنہوں نے مریضوں کے ٹیسٹ گم کر رکھے ہیں!کسی نجی لیبارٹری سے سات ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ کے عوض ٹیسٹ سرکاری لیبارٹریز سے مفت کئے جا رہے ہیں اور مفت ہونے کی وجہ سے اکثر ٹیسٹ بنا علامات بھی کئے جاتے ہیں‘ جسکے باعث سرکاری وسائل پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ کورونا وبا کی برکت سے اگر نجی و سرکاری لیبارٹریوں کو اگر صوبائی سطح پر ایک مرکزی ڈیٹابیس جوڑ دیا جائے تو اس سے نہ صرف کورونا وائرس کے مراکز کی نشاندہی باآسانی ممکن ہو گی بلکہ ٹیسٹوں کے معیار و فراہمی کے عمل میں تاخیر سے متعلق شکایات کا بھی ازالہ ہو سکے گا۔کورونا وائرس سے ممکنہ متاثرین اور ان کے اہل خانہ جس ذہنی کرب سے گزر رہے ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں‘ کورونا ٹیسٹ کسی بھی طرح شوگر یا دیگر امراض کی شدت جانچنے جیسے ٹیسٹوں کی طرح نہیں ہوتا کہ اس میں غلطی یا تاخیر ہو بھی جائے تو فرق نہیں پڑتا لیکن اگر کسی مشتبہ کورونا مریض کا لعاب لیا جائے اور دس روز بعد اسے نتیجہ دینے کی بجائے دوبارہ لعاب دینے کا کہا جائے تو اس کےلئے زندگی اور موت جیسی صورتحال سے گزرتے لمحات میں اس قسم کا رویہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے تمام باقی ماندہ کورونا ٹیسٹوں کے نتائج زیادہ سے زیادہ تین روز میں فراہم کرنے کے احکامات اپنی جگہ خوش آئند لیکن جب تک لیبارٹریوں کے کام کاج کی اصلاح کرتے ہوئے مرکزی ڈیٹابیس متعارف نہیں کروائی جائے گی اسوقت شکایات کا ازالہ ممکن نہیں اور نہ ہی کورونا ٹیسٹنگ صلاحیت سے خاطرخواہ فوائد حاصل ہو سکیں گے‘مفت ٹیسٹنگ سہولت کو سرکاری ڈاکٹر کی جانب سے ٹیسٹ تجویز کرنے سے مشروط بھی ہونا چاہئے تاکہ راہ چلتے اور غیرضروری طور پر کورونا ٹیسٹ نہ کروائے جائیں‘ قابل افسوس و مذمت اطلاعات ہیں اور خدا کرے کہ یہ سب جھوٹ ہوں کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے علاوہ ملازمین اور ان کے دوستوں‘ رشتے داروں کے کورونا ٹیسٹ بھی سرکاری وسائل سے کروانا شروع کر رکھے ہیں۔ مال مفت‘ دل بے رحم جیسی اس صورتحال کے باعث عام آدمی کو مجبوراً نجی لیبارٹریز سے رجوع کرنا پڑتا ہے جہاں فی تجزیہ سات سے بارہ ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں۔