تصویرکادوسرارخ

 لاک ڈاﺅن میں نرمی کے باعث لوگوں کے میل جول کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلاﺅ میں شدت آئی ہے اب روزانہ کی بنیاد پر پانچ ہزار سے زیادہ لوگ وائرس میں مبتلا ہو رہے ہیں جبکہ ہر روز سو سے زیادہ مریض لقمہ اجل بن رہے ہیںوزیراعظم نے شکوہ کیا کہ عوام نے احتیاطی تدابیر کو دانستہ طور پر نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے کورونا کی وباءقابو سے باہر ہوتی جارہی ہے ‘حکومت نے مکمل لاک ڈاﺅن کی تجویز کو مسترد کردیاتاہم جن مخصوص علاقوں میں صورتحال سنگین ہے انہیں مکمل طور پر لاک ڈاون کیاگیا ہے۔اس صورتحال میںپرائیویٹ سکولوں کے مالکان کی طرف سے ایس او پیز کے تحت سکول کھولنے کے مطالبات میں شدت آرہی ہے ہم نے انہی سطور میں تعلیمی ادارے کھولنے کے نقصانات اوروالدین کے تحفظات کے بارے میں اپنی رائے پیش کی تھی کہ موجودہ حالات میں سکول کھولنے کا فیصلہ دانستہ خود کشی کے مترادف ہوگا‘ کیونکہ سینکڑوں کی تعداد میںبچوں سے ایس او پیز پر عمل درآمد کرانا ممکن ہی نہیں ہے‘والدین کو اپنے بچوں کے تعلیمی سال کے نقصان کا دکھ ضرور ہے مگر تعلیم ان کی زندگی سے زیادہ ضروری نہیں ہے‘ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے سکولوں کی طویل بندش اور مالکان کے مالی نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کا موقف ہے کہ 14مارچ سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے بند ہیں امتحانات منسوخ کئے گئے ہیں ستمبر تک سکول کھلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا‘صوبے میں بیشتر پرائیویٹ سکول کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں ان کے کرائے‘ بجلی اور گیس کے بل‘ حکومت کے ٹیکسز اور ملازمین کی تنخواہیں سکول مالکان کو اپنی جیب سے دینے پڑتے ہیں ‘کسی سکول میں اگر پانچ سو بچے پڑھتے ہیں تو ان میں سے ساڑھے تین سو ہی پوری فیس دیتے ہیں جبکہ سگے بہن بھائیوں کو دی جانےوالی رعایت ‘ نادار بچوں کےلئے معافی‘ سٹاف اور یاردوستوں کی خاطر داری سمیت ڈیڑھ سو سے زیادہ بچوں سے یا تو فیس نہیں لی جاتی یا برائے نام فیس وصول کی جاتی ہے۔ فیسوں کی ماہانہ بنیادوں پروصولی کے باوجود پرائیویٹ تعلیمی اداروں کےلئے اپنے اخراجات پوری کرنا مشکل ہورہا تھا۔

 اب چھ مہینے سکولوں کی بندش کی وجہ سے والدین پوری فیس ادا کرنے کو کسی صورت تیار نہیں ہوں گے‘پرائیویٹ تعلیمی ادارے لاکھوں بچوں کو معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کر رہے ہیں اور فروغ تعلیم میں ان کا بنیادی کردار ہے اس کے باوجود ان کےساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے‘ ہمارے صوبے میں دہشت گردی کی لہر کے دوران تعلیمی اداروں کونشانہ بنایاگیا‘سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا ‘ ادارے بند رہے اب لاک ڈاﺅن کی صورت حال میں بھی تجارتی مراکز‘ صنعتی یونٹ‘ بازار ‘ کاروباری ادارے اور دفاتر تو کھل گئے مگر تعلیمی اداروںپر بندش برقرار ہے۔ سکول مالکان مالی نقصانات کا بوجھ مزید برداشت کرنے سے قاصر ہیں اور ان میں سے اکثر متبادل روزگار کے بارے میں سوچ رہے ہیں‘اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نجی تعلیمی ادارے معیاری تعلیم کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیںتعلیمی بورڈز کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ نتائج اٹھاکر دیکھ لیں گذشتہ تیس چالیس سالوں سے تمام اہم پوزیشنیں نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے حصے میں آئی ہیں۔ان کے مقابلے میں سرکاری تعلیمی اداروں کو جو مراعات اور سہولیات حکومت دیتی ہے اس کا ایک فیصد بھی نجی تعلیمی اداروں کو نہیں ملتا۔ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے بھی اسی معاشرے کا حصہ اور اسی قوم کے بچے ہیں سرکارنہ صرف نجی تعلیمی اداروں بلکہ وہاں پڑھنے والے بچوں کےساتھ بھی ہمیشہ امتیازی سلوک کرتی رہی ہے۔

لاک ڈاﺅن کی موجودہ صورتحال میں معاشرے کا ہر طبقہ متاثر ہوا ہے۔ حکومت نے معاشرے کے بیشتر طبقوں کےلئے ریلیف کا اعلان کیا ہے جو محدود قومی وسائل کے اندر رہتے ہوئے قابل تحسین اقدام ہے ‘نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی لاک ڈاﺅن کے عرصے کی فیسیں اگر حکومت اپنے ذمے لے لے تو قومی خزانے پر اتنا بوجھ نہیں پڑے گا تاہم ہزاروں والدین کو ریلیف ملے گاجو اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم حاصل کرکے یہ بچے ملک اور قوم کی بہتر خدمت کرسکیںاس ریلیف پیکےج سے قوم کے بچوں کو معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کے نقصان کا ازالہ بھی ہوسکے گا اور نجی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہزاروں ملازمین کو بھی تنخواہیں ملیں گی اور وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلاسکیںگے۔