تبدیلی دنیا کا واحد ایسا عمل ہے جو ہمہ وقت جاری رہتا ہے اور یہی تبدیلی حیات و بقا کی بھی ضمانت ہے‘ اگر کوئی بھی ملک سماج یا ادارہ کسی ایسی مستقل حالت کو اختیار کر لے جس میں تبدیلی کی گنجائش‘ طلب اور اس کے بارے میں آمادگی نہ رکھی گئی ہو تو وہ عصری تقاضوں کے شانہ بشانہ چل بھی نہیں سکے گا‘یادش بخیر جب سال 2014ءمیں تحریک انصاف نے اسوقت کی منتخب حکومت نواز لیگ کے خلاف ملکی تاریخ کا طویل ترین سیاسی دھرنا دیا تو اس سے ایک نئے سیاسی ماحول نے جنم لیا اور وہی دھرنا حکمران مسلم لیگ نواز اور ملک کی عسکری قیادت کے درمیان اختلافات میں اضافے کا باعث بھی رہا‘اگر نواز لیگ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتی اور تحریک انصاف کے مطالبات مانتے ہوئے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات والے چند حلقوں میں ضمنی انتخابات کروا دیتی تو دھرنے کا جواز باقی نہ رہتا اور آج کے سیاسی منظرنامے میں نواز لیگ زیادہ بڑا اور مرکزی کردار ادا کر رہی ہوتی‘سیاسی غلطیاں بسا اوقات پچھتاوے کی مہلت بھی نہیں دیتیں اور یہی سیاسی تاریخ کا تلخ و شریں سبق ہے کہ تبدیلی کی ضرورت اور اس کے وقوع پذیر ہونے سے انکار نہ کیا جائے بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے تبدیلی کےساتھ اپنی حکمت عملیاں تبدیل کرنے ہی میں آسودگی ہے۔
سردست تحریک انصاف کی حکومت کوئی خطرہ نہیں‘ قومی اسمبلی میں عددی اعتبار سے تحریک انصاف کی برتری برقرار ہے لیکن سترہ جون کے روز بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے تعلق رکھنے والے چار اراکین قومی اسمبلی نے حکمران جماعت سے سیاسی علیحدگی کا اعلان کیا تحریک انصاف کو مسلم لیگ (ق)‘گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس‘ متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی و دیگر کی حمایت حاصل ہے‘ جس کی وجہ سے اس کی اکثریت بنی ہوئی ہے لیکن کسی ایک چھوٹی جماعت کا یوں اپنی راہیں جدا کرنا کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے جس کا فی الوقت احساس نہیں کیا جارہا‘ پاکستان میں جب کبھی بھی سیاسی تبدیلی آتی ہے یا عام انتخابات کے قریب اتحاد بننے بگڑنے لگتے ہیں تواس سے قبل چھوٹی جماعتوں ہی کے روئیوں سے مستقبل کا سیاسی منظرنامہ تشکیل پاتا ہے‘ تحریک انصاف کےلئے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی ناراض قیادت کو منانا انتہائی ضروری ہے بصورت دیگر وہ اپنی اتحادی جماعتوں کے رحم و کرم پر چلی جائے گی‘ پاکستان کی سیاست میں قوم پرست جماعتوں کا کردار اگرچہ زیادہ بڑا نہیں لیکن ان کا ووٹ بینک کافی مضبوط ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ نظریاتی کارکن قوم پرستوں ہی کے پاس ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ مینگل قوم پرستی کی ایک طویل تاریخ و تحریک کے علمبردار ہیں اور اس کے بارے میں کسی بھی قسم کا سطحی اندازہ درست نہیں ہوگا۔ انہوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی کے اعلان سے قبل تحریری طور پر بھی اپنے وعدوں کی جانب توجہ دلائی کہ وہ ایک ایک کر کے توڑ دیئے گئے ہیں‘ان وعدوں میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات بھی شامل ہیں ۔
جو وہاں موجود افغان مہاجرین کی واپسی اور دیگر ترقیاتی منصوبوں بشمول گوادر بندرگاہ منصوبے میں مقامی لوگوں کےلئے ملازمتیں اور غریب ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ہیں لیکن حسب توقع حکومت نے تمام ٹھیکے بیرون ملک کی کمپنیوں کو دیئے ہیں‘ جن کےلئے مقامی افرادی قوت میں کشش نہیں‘سی پیک منصوبے میں ۔شفافیت کا مطالبہ کرنےوالوں غداری کی عینک لگا کر دیکھا جاتا ہے جبکہ سی پیک سے جڑے تمام منصوبے اور فیصلے عسکری قیادت نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں اور اس کے بارے میں بلوچ قیادت کے تحفظات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں‘ واقعی زیادتی اور استحصال ہے کہ بلوچستان کے لوگ سوئی گیس سونگھ بھی نہیں سکتے جو ان کے صوبے سے نکل کر دیگر صوبوں اور قومی معیشت کو چلا رہی ہے۔ پاکستان کی صنعتوں‘ بجلی گھروں اور گھریلو صارفین کے چولہے جل رہے ہیں لیکن بلوچستان کے مقامی افراد کی محرومیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سردار اختر مینگل نے جن تحفظات کا اظہار کیا اسے راکھ میں چھپی ہوئی چنگاڑی کے طور پر دیکھنا چاہئے‘ سیاست میں علیحدگی اور اتحاد جیسی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہتی ہیں‘ جو کبھی خبروں میں آتی اور کبھی نہیں آتیں۔ امید ہے کہ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت بی اےن پی(مینگل) کو حکومتی اتحاد میں واپس لایا جائے گا کیونکہ کورونا و ٹائیفائیڈ وباو¿ں اور ٹڈی دل کے اثرات سے نمٹنے کےلئے حکومت کو زیادہ توجہ اور زیادہ سیاسی ساتھیوں کی ضرورت ہے۔