معروف مذہبی شخصیت علامہ طالب جوہری کے انتقال پرعوام ہی نہیں بلکہ اہل علم و ادب بھی اداس ہیں کیونکہ انہوں نے کمال محنت سے علم کے سمندر سے ایسے نایاب موتی تلاش کئے‘ جن کی بدولت علوم قرآن کو سمجھنے کےساتھ عوام و خواص کو قرآن کریم کی روشنی میں عقائد و دینی اصلاحات بارے رائے قائم کرنے میں آسانی رہی اور یہی وجہ تھی کہ انہیں اتحاد بین المسلمین کا داعی قرار دیا جاتا تھا۔ گزشتہ چند برس سے علیل رہنے اور کمزوری کے باعث انہوں نے مجالس اور اجتماعی عبادات میں شرکت کم کر دی تھی اور اس عرصے کے دوران کم سے کم تین مرتبہ ان کے انتقال کی خبریں زیرگردش رہیں کیونکہ وہ جسمانی طور پر اس حد تک نحیف ہو چکے تھے کہ زیادہ بات چیت بھی نہیں کرتے تھے اور سارا وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتے۔ بائیس جون کی شب رات ایک بجکر ایک منٹ پر جب ان کے انتقال کی خبر موصول ہوئی تو جوہری خانوادہ سے تعلق رکھنے والی محترمہ نسرین پرویز نے واٹس ایپ پر صوتی پیغام دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ موبائل اور لینڈ لائن فون مصروف ہونے کی وجہ سے اس خبر غم کی تصدیق نہیں ہو رہی تاہم چند ہی منٹ بعد مختصر دورانئے کی 2 ویڈیوز موصول ہوئیں جنہیں دیکھ کر تصدیق ہو گئی کہ علامہ طالب جوہری بارگاہ¿ اہل بیت اطہار میں منتقل ہو چکے ہیں‘ وہ 10 جون سے ایک نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھے اور چھاتی کے امراض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انہیں آخری چند روزوینٹی لیٹر کے ذریعے سانس دی جا تی رہی تاہم اس مرتبہ وہ جانبر نہ ہو سکے۔
کراچی میں قیام کے دوران تین مرتبہ عشرہ محرم الحرام کے دوران علامہ طالب جوہری اور آیت اللہ سیّد عقیل الغروی (بھارت) کی مجالس سننے کا اتفاق ہوا‘ جہاں ہر مکتبہ فکر اور بودوباش سے تعلق رکھنے والے کئی کئی گھنٹے قبل فرش عزا پر جا بیٹھتے تاکہ وہ علامہ کا قریب سے دیدار بھی کر سکیں‘ ان کے بیانات قرآن کی آیات سے مدلل و مزین ہوتے‘ جو ان کے قوی حافظے اور وسیع مطالعے کی دلیل تھی‘ اسلامی موضوعات اور ادیان کے تقابلی جائزے کے علاوہ بطور تاریخ داں‘ شاعر اور فلسفی ان کی تصانیف تحقیق و بیان کا شاہکار ہیں کہ انہیں پڑھتے ہوئے کانوں میں انکے مخصوص طرز خطاب کی گونج محسوس ہوتی ہے اور یہ صرف انہی کا خاصہ رہا کہ وہ تحریر کو بھی کلام جیسی خوبیاں سے مرصع کر دیا کرتے تھے آپ کے والد گرامی مولانا مصطفی جوہری کا شمار بھی جید علمائے کرام میں ہوتا تھا جن کے ہاں طالب جوہری کی پیدائش 27 اگست 1939ءکوپٹنہ میں ہوئی اور علوم کی منتقلی کا ابتدائی سلسلہ گھر ہی سے شروع ہوا۔ اس کے بعد 10 برس تک نجف اشرف میں آیت اللہ العظمی سیّد ابو القاسم الخوئی کی زیرنگرانی دینی و دنیاوی علوم حاصل کرتے رہے۔ آپ نے آیت اللہ العظمی سیّد باقر الصدر سے بھی تحصیل علم کیا جو بعد میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے‘علامہ طالب جوہری 1965ءمیں نجف اشرف سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی واپس آئے اور جامعہ امامیہ مدرسے کے نگران کے طور پر خدمات سرانجام دینے لگے۔ آپ پانچ برس تک گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں علوم اسلام کے معلم بھی رہے۔
واقعات کربلا اور اسلام کے عصری شعور کو بیان کرنے میں آپ کا ثانی نہیں تھا۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں ”علامات ظہور مہدی“ ایک ایسی جامع کتاب ہے‘ جس میں اِمام زمانہ عجل اللہ و فرج کے ظہور سے متعلق ماضی‘ حال اور مستقبل کے سبھی متعلقہ عنوانات کا احاطہ پیش کیا گیا ہے‘انکی تفسیر قرآن‘ احسن الاحادیث‘ حدیث کربلائی‘ عقلیات معاصر‘ ذکر معصوم‘ نظام حیات انسان‘ خلفائے اثنائے عشر قابل ذکر ہیں جبکہ شاعری کے 3 مجموعے حرف نمو‘ پس آفاق اور شاخ صدا لاجواب ادبی فن پارے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے علامہ طالب جوہری کو نئی پہچان ملی۔ پاکستان اُور اُردو سمجھنے والی دنیا میں ان کا تعارف 1980ءاور 1990ءکی دہائیوں میں ہوا۔ ابتدا میں قرآنی موضوعات کے حوالے سے تفہیم دین اور فہم القرآن کے نام سے مختصر دورانئے کی درسی نشست سے خطاب کرتے رہے‘ جس میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوتا۔ تاہم ان کا راج کئی دہائیوں تک دس محرم الحرام کی شب مجلس شام غریباں سے خطاب کی صورت رہا‘ جو عوام و خواص کی پسندیدگی کے باعث یوم عاشور کی مناسبت سے لازم و ملزوم جز رہا ‘ یقینا علامہ طالب جوہری کے اس جہان فانی سے کوچ کر جانے سے پیدا ہونےوالا خلا کبھی پر نہیں ہو سکے گا اور ایک عالم کی موت (موت العالم) تو درحقیقت ایک عالم کی موت (موت العالم) ہوتی ہے۔