اسلام آباد: وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس چھ ماہ ہیں اور وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ سے کہا ہے کہ چھ ماہ میں کارکردگی نہ دکھائی تو معاملات دوسری طرف چلے جائیں گے۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو دیئے گئے انٹرویو میں فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی گئیں۔ یہ توقعات نٹ بولٹ ٹھیک کرنے کے لیے نہیں بلکہ پورے نظام کی اصلاح کے لیے تھیں، اس لیے اس حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے پیمانہ بھی دوسروں سے مختلف ہے۔ ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں کہ ڈیلیور نہیں کرسکے۔ حکومت دو چیزوں پر چلتی ہے۔ ایک سیاست پر اور دوسرے گورننس پر۔ ان دونوں میں توازن قائم نہ رہے تو معاملات کسی بھی وقت قابو سے باہر نکل جاتے ہیں۔ عمران خان کو اس بات کا پورا احساس ہے۔ انھوں نے کابینہ اجلاس میں بھی کہا کہ آپ کے پاس چھ ماہ ہیں کام کرنے کے لیے۔ اس کے بعد وقت آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور معاملات دوسری طرف چلے جائیں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت میں آںے سے پہلے نظام میں تبدیلی کے بارے میں عمران خان کے خیالات بالکل واضح تھے لیکن جب حکومت بنی تو جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر میں اتنے جھگڑے ہوئے کہ سارا سیاسی طبقہ کھیل سے باہر ہوگیا۔ جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے فارغ کروایا تھا۔ اسد عمر دوبارہ آئے تو انھوں نے جہانگیر ترین کو فارغ کروا دیا۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی ملاقاتیں ہوئیں لیکن بات نہیں بنی۔ پارٹی کے اندرونی جھگڑوں سے حکومت کو نقصان پہنچا۔ وزیراعظم کے مشیر فیصلے کر رہے ہیں اور سیاسی لوگ منہ دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان کی بنیادی ٹیم ہل گئی جب کہ نئے لوگ پرانے آئیڈیاز کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھے۔ ان میں صلاحیت بھی نہیں ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی سمجھ آتی تھی کہ انھوں نے کمزور لوگوں کو اہم عہدوں پر لگایا کیونکہ ان کا مقصد قیادت کو اپنے بچوں کو منتقل کرنا تھا۔ عمران خان کا تو یہ مسئلہ نہیں ہے۔ انھیں تو بہترین لوگوں کو عہدے دینے چاہیے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھیں کس نے مشورہ دیا کہ کمزور لوگوں کو لگائیں جو ہر بات کی ڈکٹیشن لیں۔ اس کا عمران خان کی ذات کو نقصان پہنچا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اطلاعات کی وزارت سے ہٹائے جانے کے بعد میں نے کہا کہ مجھے وزارت نہیں چاہیے، صرف ایم این اے رہنے دیں۔ لیکن زلفی بخاری نے کہا کہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ آپ دوسری وزارت لیں۔ انھوں نے کئی وزارتوں کے نام لیے تو میں نے سائنس و ٹیکنالوجی لے لی۔ تین ماہ میں مجھے اندازہ ہوا کہ کسی وزارت میں بہت زیادہ کام کرنے کی گنجائش ہے تو وہ یہ وزارت ہے۔ وزارت اطلاعات میں غلطیاں دوسرے کرتے ہیں اور جواب آپ کو دینا پڑتا ہے اور ایسی باتیں کہنی پڑتی ہیں جو آپ نہیں بھی کہنا چاہتے۔