خیبرپختونخوا میں پھیلے وبائی اَمراض میں صرف کورونا وائرس ہی نہیں بلکہ وبا کی شکل اِختیار کرنے والی دیگر بیماریاں بھی خطرات کے بلند نشان کو عبور کر چکی ہیں‘ جن میں ٹائیفائیڈ ایسا ہی ایک مرض ہے‘ جس کے بارے میں طبی ماہرین توجہ دلا رہے ہیں تاکہ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز یہ گلہ نہ کریں کہ اُنہیں بروقت خبر نہیں ہو سکی!ٹائیفائیڈ‘ معیادی بخار کی ایک قسم ہے جس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اور ایک ایسی صورتحال جس میں کورونا وبا کے باعث ہسپتالوں میں مزید مریضوں کو رکھنے کی گنجائش یا حسب ضرورت علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں تو ٹائیفائید کے مریضوں کا علاج کہاں اور کیسے ہوگا یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کی جانب توجہ دلاتے ہوئے ڈاکٹروں کی تنظیم نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا ہے کہ وہ صرف کورونا ہی نہیں بلکہ ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے کیسز پر بھی توجہ مبذول کریں۔ اِس سلسلے میں جو تفصیلات (اعدادوشمار) جاری کئے گئے ہیں اُن کے مطابق شہروں کے مقابلے دور افتادہ دیہی علاقوں میں ٹائیفائیڈ پھیل رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق جن علاقوں میں کورونا سرایت نہیں کر سکا وہاں ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے کیسیز توجہ طلب ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ٹائیفائیڈ کا مرض آلودہ پانی یا ایسی خوراک کھانے سے لاحق ہوتا ہے۔
جس میں زائد المعیاد ہونے یا اجزا کے ناقص المعیار ہونے کی وجہ سے جراثیم پیدا ہو چکے ہوتے ہیں۔ درحقیقت کھانے پینے کی اشیاءمیں خرابی کی صورت ایک خاص قسم کا جرثومہ پیدا ہو جاتا ہے‘ جو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ معالجین کو پریشانی لاحق ہے کہ علاج معالجے کے وسائل پھیلتے کورونا کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ایسی صورت میں اگر دیہی علاقوں کے لئے خصوصی حکمت عملی وضع نہ کی گئی تو اِس سے بحران در بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹائیفائیڈ اور کورونا وبا کی علامات ایک جیسی ہیں اور اِن دونوں بیماریوں سے سانس لینے کا نظام متاثر ہوتا ہے چونکہ حکومت‘ معالجین اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کورونا وبا پر مبذول ہے‘ اِس لئے ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے کیسز زیرنظر نہیں۔ معالجین نے اِس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ عموماً ٹائیفائیڈ معلوم کرنے کے لئے جو تجزیہ ویڈال ٹیسٹ کروایا جاتا ہے وہ سوفیصد درست نہیں ہوتا جبکہ دنیا بھر میں ٹائیفائیڈ معلوم کرنے کے لئے خون کا کلچر ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی اِسی طریقے سے تشخیص و تصدیق ہونی چاہئے کیونکہ اگر ٹائیفائیڈ کی درست وقت میں تشخیص ہو جائے تو مرض کی جان لیوا پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے اور ابتدائی علاج معالجہ بعد کے پیچیدہ اور مہنگے علاج کی نسبت آسان بھی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہر دن300 مریض ٹائیفائیڈ سے متاثر ہو رہے ہیں اور خطرے کی بات یہ ہے کہ کورونا کی طرح ٹائیفائیڈ کے مرض کا بھی اگر علاج نہ کیا جائے تو اِس کا مریض اپنے گردوپیش میں کورونا وبا کی طرح دیگر صحت مند افراد کو متاثر کر سکتا ہے‘ اِس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کی مرتب کردہ ہدایات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں ٹائیفائیڈ کے علاج کے لئے تجویز کردہ ادویات کی فہرست ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر دی گئی ہے لیکن اصل مرحلہ مرض کی تشخیص کا ہے‘ جو صرف اور صرف خون کے تجزیئے سے ممکن ہے۔ چونکہ ٹائیفائیڈ اور کورونا وبا کی علامات ایک دوسرے ملتی جلتی ہیں اِس لئے گلی محلوں میں ناتجربہ کار معالجین غلط علاج سے ابتدا کرتے ہیں‘ جس کے باعث مرض کو بعدازاں کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہتا‘ وبائی امراض کے علاج معالجے میں گھریلو ٹوٹکے اور ازخود ادویات لینا زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا مریضوں یا اُن کے تیمارداروں کو چاہئے کہ وہ مستقل رہنے والے تیز بخار کی صورت ازخود ادویات استعمال نہ کریں اور قریب ترین سرکاری ہسپتال یا مصدقہ ڈاکٹر سے رجوع کریں‘ بیماریاں وبائی ہوں یا عمومی‘ اُن سے خوفزدہ ہونے یا اُن کے حوالے سے عمومی رائے قائم کرنے کی بجائے دانشمندی سے کام لیا جائے تو ایسی کوئی بھی مشکل نہیں کہ جس کا حل نہ ہو‘ پرہیز علاج سے بہتر بطور محاورہ کسی تندرست شخص کے لئے درست تدبیر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیماری کی صورت علاج سے بہتر کوئی دوسرا نہیں اور یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ بیماریوں سے بچنے کے ساتھ اُن کے پھیلنے کو روکنے کا احساس بھی بطور فرض اور ذمہ داری محسوس کرنا چاہئے۔