ان کے ہاں جب پانچویں بیٹی پیدا ہوئی تو خاندان اور محلہ والے مبارکباد سے زیادہ افسوس کرنے کےلئے ان کے گھر آئے کہ اس بار بھی ان کے ہاں بیٹا پیدا نہیں ہوا‘ہمارے معاشرے میں یہ ایک بڑی خامی ہے کہ بیٹی کو بیٹے سے کمتر خیال کیا جاتا ہے اس کی پیدائش پر خوشی سے زیادہ افسوس کیا جاتا ہے‘تربیت اور سکول میں بھی بیٹے کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے اور بیٹی کے کسی حق کا اس طرح سے خیال نہیں رکھا جاتا جس طرح رکھنا چاہئے چونکہ ملک رفیق اعوان بھی اسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے ہری پور میں ان کے گھرآنے والے ہر فرد نے ان کی پانچویں بیٹی کی پیدائش پر ان سے اظہار افسوس زیادہ کیا آج وہ سارے خاندان والے اور محلہ دار کیا بلکہ دور دراز سے لوگ ملک رفیق کو مبارکباد دینے کےلئے فون کر رہے ہیں اور ان کے گھر آکر مبارکباد دے رہے ہیں‘کئی سال قبل ملک صاحب کے ہاں جو پانچویں بیٹی ضحی پیدا ہوئی تھی اس نے اپنی چار بڑی بہنوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک میں مقابلے کے سب سے بڑ ے امتحان سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کی‘ اس خاندان کایہ انوکھا اعزاز ہے کہ اس کی پانچ کی پانچ بیٹیوں نے سول سروسز کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اور آج کل ملک کے مختلف حصوں میں فرائض کی انجام دہی کےساتھ ساتھ اپنے والد ملک رفیق اعوان اور والدہ خورشید بیگم کا نام روشن کر رہی ہیں 2008ءمیں ان کی سب سے بڑی بہن لیلیٰ ملک شیر نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا یوں ان کے دےکھا دیکھی چھوٹی بہن بھی اس جانب راغب ہوئیں‘لیلیٰ ملک شیر اس وقت انکم ٹیکس کے محکمہ میں ڈپٹی کمشنر ہیں‘۔
انہوں نے جب سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تو اس وقت ان کی عمر 21 سال تھی خاندان کی دوسری بیٹی شیریں ملک شیر نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں ڈائریکٹر ہیں جبکہ تیسری بہن سسی ملک شیر ڈپٹی ایگزیکٹو چکلالہ کینٹ اور چوتھی بیٹی ماروی ملک شیر ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ایبٹ آباد ہیں‘ضحی ملک شیر آفس مینجمنٹ گروپ میں منتخب ہوئی ہیں اس طرح ان کے والدین کا خواب پورا ہو گیا ہے جو انہوں نے اپنی بیٹیوں کے بارے میں دیکھا تھا کہ وہ نہ صر ف بیٹوں کی طرح اپنے پاﺅں پر کھڑی ہوں بلکہ مزیدآگے جاکر اس معاشرے میں اہم اور موثرکردار ادا کریںجہاں بیٹی کو بیٹے سے کمتر خےال کیا جاتا ہے‘ان تمام خواتین کی کامیابی کا سہرا ان کی محنت اور لگن کے سر تو جاتا ہے مگر اس سے زیادہ وہ والدین قابل تعریف ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کی اتنی بہترین تعلیم وتربیت کی کہ آج وہ سب اپنے پاﺅں پر مضبوطی کےساتھ کھڑی ہیں‘ ان کے والد فخر کےساتھ ہرکسی کو کہتے ہیں کہ ان کی ایک ایک بیٹی پانچ پانچ سو بیٹوں پر بھاری ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو بیٹے تو پیدا کر لیتے ہیں مگر ان کی تعلیم وتربیت پر کوئی توجہ نہیں دیتے‘سکول بھیجتے ہیں تو اس نیت سے کہ میٹرک یا انٹرکرکے سرکاری نوکری پرلگ جائے اور والد کا ہاتھ بٹانے لگے‘بہت سے لوگ بچپن سے ہی بچوں کو دکان ‘ ورکشاپ وغیرہ پر لگا دیتے ہیں کہ سکول کےساتھ ساتھ کام بھی سیکھ جائے دراصل ہم ان کو پاﺅں پر کھڑا کرنے کےلئے نہیں بلکہ جلد سے جلد اپنی مدد کے قابل بنانے پر توجہ دیتے ہیں۔
تاکہ وہ گھر چلانے کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہو جائےں تو ہمیں آرام ملے‘ جہاں تک بیٹی کا سوال ہے ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ آخر تو اسے دوسرے گھر ہی جانا ہے تو ہماراکیا فائدہ‘اگر ان کی تعلیم اور تربیت پر وقت یا پیسہ خرچ کیا جائے‘ ہر کام اپنے فائدے کو دیکھ کر نہیں کیا جاتا ہم سب پر اپنے بچوں کی بہترین تربیت اور تعلیم ان کا حق ہے ضروری نہیں کہ زیادہ فیس والے سکول میں ہی بچوں کو داخل کیا جائے بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق سکول بھجوانے کےساتھ ساتھ گھر میں ان کی تعلیم اور تربیت پر خاص توجہ دی جائے‘ان کو ہمیشہ یہ بات سکھائی جائے کہ انہوں نے تعلیم نوکری حاصل کرنے کےلئے نہیں بلکہ اپنے پاﺅں پر مضبوط کھڑا ہونے‘دوسروں کی مدد کے قابل بننے اور معاشرے میں اپنا اہم اور مثبت کردار ادا کرنے کےلئے حاصل کرنی ہے‘بیٹی ہو یا بیٹا دونوں اللہ کی نعمت اور رحمت ہیں‘دونوں کے حقوق کی ادائیگی کئے بغیر ہم میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا‘ضروری نہیں کہ ہر بیٹی اور بیٹا شیر بہنوں کی طرح سی ایس ایس کرکے کامیاب ہو بلکہ زندگی میں جس طرح بھی ہو اپنے پاﺅں پر مضبوط کھڑا ہونا اور معاشرے کا بہتر فرد بننا ضروری ہے‘خدا کرے کہ ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے حقوق اس طرح ادا کرنے کے قابل ہو جس طرح خدا نے حکم دیا ہے اور جو ان کا اصل حق ہے۔