عالمی وبا کے باعث عالم اسلام کا بزرگ ترین عالمی اجتماع منسوخ کر دیا گیا ہے تاہم حج مناسک کی ادائیگی حسب سابق ہوگی لیکن اس میں مقامی و غیر مقامی افراد کی انتہائی محدود تعداد شریک ہو سکے گی جنہیں مناسک حج کی ادائیگی کرنے کے بعد دو ہفتوں کےلئے قرنطینہ میں رہنا ہوگا‘ہر عازم اپنے ساتھ جائے نماز رکھے گا۔ حج شروع ہونے سے قبل اور بعد حجاج کے کورونا ٹیسٹ کئے جائیں گے جبکہ سالانہ اجتماعی عبادت میں شرکت کرنے والے خوش نصیب عازمین کےلئے کورونا سے بچاو¿ کےلئے دیگر قواعد و ضوابط کے مطابق رواں برس سالانہ فرض عبادت کی علامتی ادائیگی اور اس موقع پر سماجی دوری برقرار رکھی جائے گی کیونکہ پوری دنیا میں مذہبی و سماجی اجتماعات پر پابندی عائد ہے‘ جسے مدنظر رکھتے ہوئے امت مسلمہ بھی اپنی ذمہ داری کی عملاً ادائیگی کرے گی‘ڈبلیو ایچ او مسلسل خبردار کر رہا ہے کہ اگر کورونا وبا کو اس مرحلے پر نہ روکا گیا جبکہ یہ دنیا کے قریب سبھی ممالک میں موجود ہے اور اسے سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو اندیشہ ہے کہ اس سے زیادہ بڑی تعداد میں وہ افراد بھی متاثر ہو سکتے ہیں‘ جو ایک مرتبہ صحت یاب ہو چکے ہیں اور اس سے ہونےوالی اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ دنیائے اسلام کی طرح یقینا اہل پاکستان بھی اس موقع پر مغموم ہیں کہ حج جیسے عظیم الشان‘ عظیم المرتبت عالمی اجتماع میں شرکت نہیں کر سکیں گے‘ جسکا سارا سال ہی نہیں بلکہ ساری زندگی انتظار کرنےوالوں کی ایک بڑی تعداد کا دکھ اپنی ناقابل بیان ہے‘ ذہن نشین رہے کہ اس مرتبہ حج کےلئے بیرون ملک سے سفر کر کے سعودی عرب آنے کی اجازت نہیں‘ سعودی عرب حج کےلئے خصوصی اجازت نامے جاری کرتا ہے۔
جو اس سال جاری نہیں کئے جا رہے بلکہ سعودی عرب کے مقامی اور سعودی عرب ہی میں مقیم غیرملکیوں کی خاص منتخب تعداد کو حج ادا کرنے کی اجازت ہو گی جن کی مجموعی تعدادایک ہزار رکھی گئی ہے۔ گزشتہ برس 24 لاکھ سے زائد عازمین نے حج ادا کیا تھا جبکہ 1999ءسے 2019ءکے درمیانی عرصے مےںسب سے زیادہ عازمین نے سال 2012ءمیں حج ادا کیا جن کی تعداد سعودی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 31لاکھ 61 ہزار 573 تھی‘حج محدود نہیں ہوا بلکہ اس کی ادائیگی میں شرکت کرنےوالوں کی تعداد محدود کی گئی ہے اور یہ حکمت عملی پراسرار کورونا وبا سے پیدا ہونےوالے موجودہ حالات میں اختیار کی جانےوالی موزوں ترین ہے کیونکہ کورونا حقیقت‘ سچائی اور خطرے کی صورت ہر مذہب کے ماننے والوںکے سروں پر منڈلا رہی ہے‘ جس سے دنیا بھر میں لاکھوں اموات ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے!چونکہ کورونا وبا کی صورت سماجی فاصلہ رکھنا صرف ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری بن چکا ہے اسلئے سعودی عرب نے نہایت ہی سوچ بچار اور شرعی تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے اقدامات کئے ہیں‘ عجیب و غریب منطق ہے کہ سعودی عرب سے قربت اور وابستگی رکھنے والے بھی کورونا وبا سے بچنے کےلئے اس قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے جو سعودی عرب میں رائج ہیں! اسلامی تعلیمات میں بالعموم اور عبادات کی ادائیگی میں بالخصوص انسانی جان کی حرمت اور اسے لاحق خطرات کو مدنظر رکھا جاتا ہے جبکہ اہل اسلام کےلئے آسانیاں بھی دین فطرت و صادق ہی کا خاصہ ہے کہ اس میں نہ تو جنون کا عمل دخل ہے اور نہ ہی جذبات کو احکامات پر حاوی ہونے دیا جاتا ہے۔ یہ گھڑی اعتدال پسندی‘ میانہ روی اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی ہے۔
یہی طرزعمل دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اسلام کی جانب متوجہ کرے گا کہ مسلمانوں نے ایک ایسے موقع پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جبکہ دنیا کو اس کی ضرورت تھی‘ یہ پیغام اپنی جگہ اہم ہے کہ مسلمان بنیاد پرست تو ہیں کہ وہ حج کی عبادت کو منسوخ نہیں کر رہے لیکن انتہا پسند نہیں کہ انہوں نے حج میں شرکت کرنےوالوں کی تعداد کم کر دی ہے۔ حج کی عبادت کا ایک پہلو ’مسلم امہ کے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے رنگ و نسل‘ زبان اور قومیت کی امتیاز ختم ہو جاتی ہے‘نبی آخرالزماں‘ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ حجة الوداع کی یاد تازہ ہو جاتی ہے‘ یہی تاریخ کا وہ عظیم دن بھی ہے جب دین مکمل ہوا‘ جب نعمتیں تمام ہوئیں اور جب اللہ تعالیٰ اسلام کے اعمال و عبادات کی تکمیل سے راضی ہوا۔ یہی روح عبادت ہے کہ اس کی روح کو فراموش نہ ہونے دیا جائے اور ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے۔ یقینا وہ دن زیادہ دور نہیں جبکہ مسجد الحرام کی پاک و پاکیزہ معطر فضاو¿ں میں تلبیہ کی صدائیں پھر سے بلند ہوں گی۔