پولیس کا شہری پر تشدد، حکومت کا عدالتی تحقیقات کروانے کا فیصلہ

خیبرپختونخوا کی حکومت نے پشاور کے علاقے تہکال میں نوجوان کو پولیس اسٹیشن میں نیم برہنہ کر کے بدسلوکی اور تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے کی عدالتی انکوائری کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز پشاور کے ایک تھانے کے اندر پولیس اہلکاروں کی شہری کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنانے اور اس کے ساتھ نازیبا زبان کے استعمال کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس پر خاصہ ہنگامہ مچ گیا تھا۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتےہوئے مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے کہا کہ ایس ایچ او تہکال کو نہ صرف معطل کیا گیا بلکہ ان کے خلاف بھی مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جبکہ ایس ایس پی آپریشن پشاور کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے حوالے سے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں مزید کارروائیوں کا فیصلہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا خیبرپختونخوا ٹریبونل آف انکوائری آرڈیننس کے تحت پشاور ہائی کورٹ کے فاضل جج کی نگرانی میں تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور جج کا نام پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے نامزد کیا جائے گا۔ اجمل وزیر نے کہا کہ عدالتی انکوائری کے لیے 15 روز کی مدت مقرر کی جائے گی فاضل ٹریبونل معاملے کی تحقیقات اور گواہان کے بیانات ریکارڈ کرے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ حکومتِ خیبرپختونخوا واقعے کی رپورٹ ایک ماہ میں منظر عام پر لے آئے گی مذکورہ شخص کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے تمام افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

دوسری جانب جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے پولیس اسٹیشن میں نوجوان کو برہنہ کرنے کے الزام میں گرفتار تینوں اہلکاروں کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے علاقے تہکال کے پولیس اسٹیشن کے اندر ردیغ اللہ عرف عامرے نامی نوجوان کو برہنہ کر کے تشدد کرنے والے ملزمان کو جوڈیشنل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

پولیس نے عدالت سے ملزمان کے ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے تنیوں کو دو روزہ جسمانی ریمارنڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے مذکورہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا ثناء اللہ عباسی کو طلب کیا۔ آئی جی خیبر پختونخوا، عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس قیصر رشید نے انہیں مخاطب کرکے سوال کیا کہ آئی جی صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟ پولیس کس سمت جارہی ہے؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہے اور دوسری جانب اس طرح کے واقعات نے معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ویڈیو واقعے نے لوگوں کو صدمے میں ڈال دیا ہے۔ جسٹس قصیر رشید نے مزید ریمارکس دیے کہ کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورا ڈپارٹمنٹ بدنام ہوا ہے، آپ لوگوں نے ایب نارمل لوگوں کو اسٹیشن ہاؤس آفیسرز (ایس ایچ او) بنادیا ہے اور ہدایت کی کہ ایس ایچ او بنانے سے پہلے ذہنی توازن ٹیسٹ کیا جائے۔

جسٹس قیصر رشید نے آئی جی کے پی کو یہ بھی ہدایت کی کہ واقعے کی انکوائری کریں لیکن ایسا نہ ہو انکوائری میں اپنے بندوں کو کلین چٹ دے دی جائے۔ سماعت میں آئی جی ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملوث ایس ایچ او اور اہلکاروں کو معطل کردیا گیا تھا اور اس واقعے میں ایس ایس پی آپریشن کا بھی کردار تھا جنہیں رات کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

آئی جی کے پی نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ ملوث اہلکاروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ ثناء اللہ عباسی نے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ پولیس سے بروقت ایکشن لے لیا ہے۔ ادھر ڈسٹرک پراسیکیوٹر فضل نورانی نے تہکال واقعے کی نگرانی کے لیے دورکنی قانونی ٹیم تشکیل دے دی جو مقدے میں دفعات اور دیگر امور کا قانون کے مطابق جائزہ لے گی۔ اس کے علاوہ ڈسٹرک پراسیکیوٹر نے متاثرہ نوجوان کا میڈیکل کروا کر اس کی رپورٹ بھی جمع کروانے کی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ یہ واقعہ ردیع اللہ نامی نوجوان سے متعلق ہے جس کی ایک ویڈیو گزشتہ ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھی جس میں وہ بظاہر نشے کے اثر میں پولیس افسران کو برا بھلا کہہ رہا تھا جس کے بعد اسے 2 دیگر افراد کے ساتھ منشیات رکھنے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔ نوجوان کے حوالے سے 2 ویڈیوز بدھ کے روز سامنے آئیں جس میں پولیس اہلکاروں نے اسے برہنہ کیا ہوا تھا جس پر سوشل میڈیا پر سخت غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔

 رپورٹ کے مطابق 19 سیکنڈ کی پہلی ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کو نیم برہنہ نوجوان کو ایک کمرے میں داخل ہونے پر مجبور کرتے دیکھا گیا جبکہ 36 سیکنڈ کی دوسری ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پولیس اہلکار نیم برہنہ نوجوان کو موبائل ویڈیو بنوانے پر مجبور کررہے ہیں۔ ان ویڈیوز کی وجہ سے سوشل میڈیا پر خاصہ ہنگامہ مچ گیا اور جماعت اسلامی، سول سوسائٹی کے اراکین نے غیر انسانی سلوک پر احتجاج بھی کیا جبکہ ٹوئٹر پر جسٹس فار عامر کے نام سے ٹرینڈ بھی چلتا رہا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیا تھا جس کے بعد تھانے میں تعینات اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) سمیت 3 اہلکاروں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ویڈیو میں تشدد کا نشانہ بننے والا 30 سالہ ردیغ اللہ عرف عامرے افغان شہری ہے اور تہکال میں رہائش پذیر تھا جبکہ اس پر تشدد بھی تہکال پولیس اسٹیشن میں کیا گیا۔