جس طرح کہ عام طورپر سنتے چلے آئے ہیں اب ایک بارپھر دیکھ بھی لیاہے کہ چند گندی مچھلیوں نے پورے کے پورے تالاب کو گندا کردیاہے صوبہ کی جس پولیس نے بڑی مشکل سے اپنا ایک اچھا امیج بنانے کی کوشش میں سینکڑوں جانوں کی قربانیاں دی اس کے نام کو دوعددایس ایچ اوز اور چند اہلکاروں نے مل کرداغدار کردیا جن کو مبینہ طورپر اوپر کی آشیرباد بھی حاصل تھی‘ عامر تہکالی کےساتھ جو کچھ ہوا اس نے نوآبادیاتی پولیس سسٹم کوایک بارپھر ننگا کردیا نجانے ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں موجود ہ پولیس قانون اورنظام کی بنیاد اس آخری کوشش کے چار سال بعد رکھی گئی تھی جو ہندوستان کے تمام باشندوں نے مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کےلئے کی تھی ‘1857ءکی جنگ آزاد ی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے چن چن کر مسلمانوں سے بدلے لینے شروع کئے ان کےساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کاحصہ بن چکاہے ‘جب ہندوستان پر کمپنی سرکار کے بجائے تاج برطانیہ کااقتدار قائم ہوا تو اپنے اقتدار کو قائم ودائم رکھنے کےلئے اس نے اس غلام سرزمین کو قابو میں رکھنے کی غرض سے ہر جائز وناجائز حربہ اختیار کیا جنگ آزاد ی کے محض چا ر سال بعد پولیس سسٹم کو موثر بنانے کےلئے جو قانون لایاگیااس میں غلاموں کو جوتے کی نوک پر رکھنے کےلئے اس فور س کو بے محابہ اختیارات دیئے گئے مقصد حکمرانوں کی دہشت قائم رکھناتھا‘ یہی وہ بدنام زمانہ قانون تھا۔
جس کی بدولت چندہزار انگریز افسران نے پورے برصغیر کو اگلے ڈیڑھ سو سال تک قابو میں رکھا انگریز چلے گئے مگر دیگر شعبوں کی طرح پولیس کے شعبہ کےلئے بھی اپناقانون اور نظام چھوڑ گئے پھرہمارے کالے انگریزحکمرانوں نے مخالفین کو دبانے کےلئے اس فورس کااستعمال شروع کیا اور یہ سلسلہ کچھ اس طرح چلاکہ ایک بارپھر گذشتہ دنوں ا س کی اصلیت سامنے آگئی ہمارے پولیس سسٹم میں جب تک ایس ایچ او کاموجود ہ کلچر رہے گا حالات اسی طرح رہیں گے ‘ایک میٹرک پاس انسان کو جس قدر اختیارات حاصل ہیں اس کے تصورسے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اگر چہ آئین اور بعض متعلقہ قوانین کے تحت تھانوں میں تشدد پر سخت پابندی ہے مگر تھانے کے اندر نہ تو آئین چلتاہے نہ ہی وہاں شریعت کو مانا جاتاہے تھانہ بذات خود ایک ریاست بناہوا ہے اورایس ایچ او اسکامطلق العنان حکمران ہوتاہے ‘ہمارے ملک میں تو ایسے ایسے ایس ایچ او ز بھی پائے جاتے ہیں جن کی پہنچ اتنی اوپر تک ہوتی ہے کہ بسا اوقات آئی جی بھی بے بس ہوجاتاہے ‘ڈی آئی جیز اور دیگر اعلیٰ افسران تو کسی قطار وشمار میں ہی نہیں ہوتے ‘عامر کے کیس میں ملوث ایس ایچ اوز کے متعلق بھی یہ بتایا جاتاہے کہ ان کو مبینہ طورپربعض طاقتور حکومتی شخصیات کے قریبی عزیزوں کی سرپرستی حاصل ہے چنانچہ جب تک ہمارے ہاں موجودہ ایس ایچ او کلچر اپنی موجود شکل و ہےئت میں قائم ہے تب تک پولیس اصلاحات کاکوئی بھی فائدہ عام لوگوں کو نہیں ہوسکتا صرف ایک ہفتے کے واقعات ہی دیکھ لیں عامر تہکالی پرتشدد ہواوہ بھی ایساکہ اسلامی و پختون روایات کی دھجیاں اڑادی گئیں۔
شانگلہ میں تھانے میں مبینہ طورپر غریب ٹرک ڈرائیور کی جان لے لی گئی‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک وفاقی وزیر کی تقریب میں ایس اوپیز کی خلاف ورزی پرمبنی خبر یں چلانے والے صحافی کو پابند سلاسل کردیاگیا اورپھر بھی ہم مصرہیں کہ ہماری پولیس بدل گئی ہے‘ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ پولیس فورس کےلئے شاید متعلقہ قوانین تو بدلے ہوں مگر پولیس فورس کامجموعی رویہ فی الحال بدلتا دکھائی نہیںدیتا اوراس کی ذمہ داری صرف نچلے درجہ کے اہلکاروں پر ہی عائد نہیں ہوتی آئی جی سے لے کر ایس پی کے عہدے تک کے افسران بھی اس کے برابرکے ذمہ دارہیں کیونکہ ان میں سے بعض افسران کی اخلاقیات کے اثرات پھر نیچے ایس ایچ او اور سپاہی تک منتقل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اہل افسران اور محنتی و انسان دوست پولیس اہلکار بھی بدنامی کی زد میں آجاتے ہیں‘ عامر تہکالی کے کیس کو اب ٹرننگ پوائنٹ بناناہوگا بصورت دیگر ایک اور مناف پیدا ہو سکتا ہے مردان کے مناف کےساتھ بھی مقامی تھانے میں کچھ اسی قسم کاسلوک ہوا تھا ا سکے بعد جو ہوا اس سے مردان کے باشندے اورہماری پولیس فورس بخوبی آگا ہ ہے‘ صوبائی حکومت نے بروقت اقدام کرتے ہوئے متعلقہ ایس ایچ او کومعطل اور اہلکاروں کو حراست میں لے لیاہے جبکہ ایس ایس پی آپریشنز کو بھی عہدے سے فارغ کردیاہے تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اصل چیز ایس ایچ اوکلچر کو بدلناہے ا س حوالہ سے اگلے کالم میں بات ہوگی کیونکہ ابھی اس کاتفصیل سے ذکرکرنے کی گنجائش نہیں ‘وزیر اعلیٰ محمود خان اور موجودہ آئی جی نے جس طرح چند گھنٹے کے اندراندر اہم فیصلے کیے امید ہے کہ اب وہ ایس ایچ او کلچر بدلنے کےلئے بھی ہنگامی بنیاد وں پر اقدامات کو ترجیح دیں گے۔