جرم کا جواب بصورت سزا اور اصلاح تو ہو سکتا ہے لیکن جواباً جرم نہیں ہو سکتا اور پولیس کا کام تو کسی بھی قانون قاعدے میں ملزم کو سزا دینا نہیں تو پھر ہمارے اردگرد رونما ہونےوالے پولیس تشدد کے معلوم اور نامعلوم واقعات کیا ہیں اور کیوں ہیں؟ اصلاحات جادو کی چھڑی سے نہیں بلکہ مسلسل نگرانی سے ممکن ہوتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے‘ جس کے بارے میں سب سے زیادہ بات ہونی چاہئے۔چند دنوں کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر پشاور پولیس کو گالیاں دینے والے نوجوان کو آن کی آن گرفتار کرکے جس پھرتی و مستعدی کا مظاہرہ کیا گیا اسکا ڈراپ سین یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکار معطل کر دیئے گئے ہیں کیونکہ انہوں نے حد سے تجاوز کیا اور مذکورہ نوجوان کو گرفتار کرنے کے بعد اس سے برہنہ حالت میں بات چیت اور تشدد کیا گیا۔ جسمانی تشدد کی ایسی مثالیں شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہوں! ملزم کو ماں بہن کی گالیاں دینا اور اس پوری کاروائی کی فلم بندی کرکے سوشل میڈیا پروائرل کرنا کہاں کا پولیسنگ ماڈل ہے؟ لمحہ فکریہ ہے کہ جس طرح عامر سکنہ تہکال نے غلطی کی بالکل اسی انداز میں بلکہ اس سے بھی کئی قدم آگے بڑھ کر پولیس اہلکاروں نے جذباتی انداز میں اپنے اندھا دھند اختیارات اور طاقت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ جسے دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے۔ قبل ازیں سوشل میڈیا پر کسی بھی صارف کی پولیس کو گالیاں دینے والے نوجوان سے ہمدردیاں نہ تھیں لیکن مذکورہ تشدد اور بدسلوکی کی تشہیر کے بعد پولیس کی بجائے اکثریت کی ہمدردیاں مذکورہ نوجوان سے ہیں۔
جن کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی حکومت نے ایس ایس پی آپریشنز پشاور ظہور بابر آفریدی کو عہدے سے ہٹانے جبکہ متعلقہ ایس ایچ او کو معطل اور تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر رکھا ہے‘یہ سب کچھ مذکورہ نوجوان پر تشدد کی ویڈیوز منظرعام پر آنے کے بعد انتہائی ڈرامائی انداز اور چند ہی گھنٹوں کے اندر ہوا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے پولیس سربراہ کو طلب کیا اور زیرحراست نوجوان پر ہوئے تشدد پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ شاید اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس بات پر بھی غور ہوا ہو کہ جب پولیس تھانے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت کسی بھی شخص کے کیمرہ فون کے ہمراہ داخلے پر پابندی عائد ہے تو پھر یہ ویڈیوز کیسے بنائی گئیں؟ کیا مذکورہ پابندی صرف عوام کےلئے ہے تاکہ پولیس تشدد اور پولیسنگ کے وارداتی طریقہ کار کی تشہیر نہ ہو سکے؟ بہرحال چار پولیس اہلکاروں کےخلاف مقدمہ درج ہے جن میں سے 3 گرفتار ہیں اور صوبائی حکومت نے تحقیقات کےلئے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دیدی ہے لیکن جو نقصان سیاسی طرزحکمرانی‘ پولیس کی ساکھ اور انسانی حقوق کی پامالی کی صورت سامنے آیا ہے اس کے تناظر میں یہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ پولیس کے اختیارات میں کمی اور مغربی ممالک کی طرح پولیس یونیفارم پرکیمرے نصب ہونے چاہئےں۔
ردیع اللہ عرف عامر سکنہ تہکال بطور افغان مہاجر پشاور میں اہل خانہ کے ہمراہ مقیم ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس کےخلاف پولیس تشدد کے واقعے نے سفارتی رنگ اختیار کر لیا ہے اور افغان قونصل خانے نے عامر اور اس کے اہل خانہ سے رابطہ کر کے تسلی دی ہے اور یہ معاملہ پاکستان میں افغان سفیر کے نوٹس میں ہے۔ ایک حساس معاملہ مزید حساس رخ اختیار کر گیا ہے جسے خیبرپختونخوا حکومت نے پہلے ہی بھانپ لیا اور اس واقعے پر صوبائی مشیر اطلاعات اجمل وزیر اور سی سی پی او محمد علی گنڈاپور کو پریس کانفرنس میں بتانا پڑا کہ تحقیقات کےلئے اے آئی جی کی سربراہی میں ڈی آئی جی اور سی سی پی او کمیٹی کے رکن ہوں گے اور ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی! اگر ماضی میں اس قسم کے واقعات پر سخت سزا دی گئی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اس پوری صورتحال نے نہ صرف پشاور پولیس کی کارکردگی بلکہ خیبرپختونخوا میں پولیس اصلاحات کا دعویٰ کرنےوالی تحریک انصاف حکومت کےلئے ایک نیا درد سر پیدا کر دیا ہے ۔ وقت ہے کہ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے محرکات سے زیادہ اصلاحات کے بارے بحث ہونی چاہئے اور پولیس اصلاحات سے متعلق سوچ بچار کو عملی جامہ پہنایا جائے۔