قومی اسمبلی‘ سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب عوامی نمائندوں کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے آزمائشوں سے کچھ نہیں سیکھا‘کورونا کی عالمی وباءنے دنیا کے دیگر تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر شعبہ زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے‘یہ دہشت گردی اور جنگ سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اب ایک نادیدہ دشمن سے مقابلہ ہے جس نے ہمارے ملک کی معیشت‘قومی اداروں‘ معاشرت‘ طرز زندگی‘ روزمرہ کے معمولات‘عبادات اور اقدارکو بھی متاثر کیا ہے‘ایسے مرحلے پر قومی اتفاق رائے اور یک جہتی ناگزیر ہے‘پورا معاشرہ اپنی بقاءکی جدوجہد میں مصروف ہے جبکہ ہماری سیاسی قیادت اب بھی اپنے سیاسی مفادات کے حصول میں مگن ہے‘وفاقی وزیراطلاعات ونشریات شبلی فراز کو بھی یہی شکوہ ہے کہ ہماری اپوزیشن جماعتیں قدرتی آفت پر بھی سیاست کررہی ہیں ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ حالات مزید خراب ہوں‘ ملک کی معیشت بیٹھ جائے اور یہ حکومت پر دباﺅ ڈالنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے جو کرپشن کی ہوئی اس کےلئے انہیں این آر او مل جائے‘ہماری تشویش صرف یہ ہے کہ اپوزیشن مخلص نہیں ‘ صوبوں سے پوچھا جانا چاہئے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد گذشتہ پانچ برس میں صحت کے شعبہ میں کتنا پیسہ خرچ کیا گیا‘سندھ میں گذشتہ پانچ سال کے دوران پانچ ہزار ارب روپے صحت کے شعبے کی ترقی کےلئے مختص کئے گئے ۔
قوم کو دکھایا جائے وہ پیسہ کہاں خرچ کیاگیا۔ وہ رقم لیڈروں کی جیبوں میں گئی یا عوام پر خرچ ہوئی‘ انہوں نے کہا کہ قیادت کا پہلا ٹیسٹ یہی ہوتا ہے کہ وہ فیصلے کرنے میں کتنا بے خوف ہے‘ اس میں کتنی یکسانیت ہے اور وہ کتنا ایماندار ہے اور یہ تمام خوبیاں موجودہ سیاسی قیادت میں موجود ہیں‘حکومت کی شروع دن سے یہ پالیسی تھی کہ ہم نے لوگوں کو بیماری سے بھی بچانا ہے اور معیشت کو بھی سہارا دینا ہے ملک میں جب کورونا کی وباءپھیلنے لگی تو ہمارے پاس صرف دو لیبارٹریاں تھیں جو اب 126پر پہنچ گئی ہیں‘ ہمارے پاس 2800وینٹی لیٹر تھے جو اب4800ہو گئے ہیں اورآئندہ چند روز میں مزید 1400وینٹی لیٹر آرہے ہیں۔شبلی فرازکے سیاسی نظریئے سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر انہوں نے جن حقائق کی نشاندہی کی ہے انہیں یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔قوم آج ہنگامی صورتحال سے دوچار ہے‘حکومت کی طرف سے مکمل لاک ڈاﺅن سے احتراز کے باوجود لاکھوں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیںحکومت تیل کی قیمتیں کم کرتی ہے تو فلنگ سٹیشنوں کو تیل کی سپلائی بند کرکے عوام کو مشکلات میں ڈالا جاتا ہے۔شوگر ملوں کےخلاف کاروائی کی جاتی ہے تو چینی کی ذخیرہ اندوزی کرکے قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں۔ کبھی گندم اور آٹے کی نقل و حرکت بند کرکے آٹا بحران پیدا کیا جاتا ہے کبھی مرغی اورروزمرہ ضرورت کی دیگراشیاءکی قیمتوں میں اضافہ کرکے حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسمبلیوں کے اجلاسوں میں مچھلی بازار کے مناظر ہوتے ہیں۔
عوامی مسائل کے حل اور قدرتی آفت سے نمٹنے کی تدبیریں سوچنے کے بجائے منتخب ارکان ایوانوں میں گالم گلوچ‘ دھینگا مشتی ‘ شورشرابے اور واک آﺅٹ کا کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔پاکستان کا عام شہری اپنے منتخب ارکان کا یہ طرز عمل دیکھ کر کڑھتا رہتا ہے۔ میڈیا کی ترقی کے اس دور میں حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ 1980کا دور نہیں‘ 2020ہے‘لوگ سیاسی طور پر کافی باشعور ہیںان کی ہر چیز پر نظر ہے۔ وہ سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں ‘ اصولوں اور منشور کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں اس ہنگامی صورتحال میں اگر ملک کے سیاسی رہنماﺅں نے قوم کی موثر قیادت کا فریضہ انجام نہیں دیا اور اپنے سیاسی مفادات کے پیچھے بھاگتے رہے تو عوام ان کی آج کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔کورونا کی وباءایک قدرتی آفت ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے ہاں دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت کم جانی نقصان ہوا ہے قوم کو مزید جانی و مالی نقصان سے بچانے کےلئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر حکمت عملی وضع کرنی چاہئے ہر کام کی ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔اپوزیشن‘قومی اداروں‘ مذہبی جماعتوں‘دانشوروں‘ اہل قلم اورہر شعبے کے نمائندہ افراد کو اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلنے میں حکومت کا ہاتھ بٹانا چاہئے اگر بقاءکی جنگ میں کامیاب رہے تو سیاست کا کھیل بھی چلے گا‘آج دھرنے‘ احتجاج ‘ مظاہروں اورجلسے جلوسوں کے صرف اور صرف قومی بقاءکی فکر کرنی چاہئے۔