مصنوعی ذہانت

 سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق ایجادات اور نت نئے تصورات سے متعلق خبروں‘ تبصروں اور تجزئیوں پر مبنی معروف جریدہ دی سائنٹسٹ کی رواں ماہ کےلئے اشاعت کے خصوصی مقالے سے معلوم ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے لیس ایک سافٹ وئر اور سی ٹی سکین کی مدد سے ممکن ہو چکا ہے کہ کسی شخص میں کورونا وائرس کی موجودگی کا سراغ لگایا جا سکے۔ ذہن نشین رہے کہ سی ٹی سکین عمومی ایکسرے کی جدید شکل ہے‘ جس میں جسم کے اندر کسی بھی حصے کے مختلف زاوئیوں سے خاکے حاصل کئے جا سکتے ہیں اور پھر ان خاکوں کے مطالعے سے مرض کی تشخیص یا اس کی مرحلہ وار شدت کے بارے میں طبی رائے قائم کی جاتی ہے سی ٹی سکین کے علاوہ جسم کے اندر ہونےوالی تبدیلیوں سے آگاہی اور جانچ کےلئے ایم آر آئی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے‘ جو طب کے شعبے میں رائج تشخیصی نظام کی جدید ترین شکل ہے لیکن ان دونوں طریقوںمیں فرق یہ ہے کہ سی ٹی سکین ایکسرے نامی مضر شعاو¿ں جبکہ ایم آر آئی معتدل مقناطیسی لہروں کے ذریعے جسم کے اندرونی حصوں کے خاکے تصویری صورت میں بنا سکتے ہیں علاوہ ازیں سی ٹی سکین سے نکلنے والی شعائیں اگرچہ کم مضر صحت اثرات رکھتی ہیں لیکن ان سے تابکاری کا اخراج ہوتا ہے‘ جو اپنی جگہ کئی امراض کا سبب بن سکتا ہے اور اسی لئے ماہر معالجین ہی کے مشورے سے سی ٹی سکین کروانا چاہئے۔ سی ٹی سکین کے مقابلے ایم آر آئی امراض کی تشخیص کا نسبتاً محفوظ اور زیادہ تفصیلی معلومات حاصل کرنے کا طریقہ ہے لیکن چونکہ پاکستان میں ایم آر آئی زیادہ عام نہیں اور اس کی ایک مشین کی قیمت تین سے پندرہ کروڑ روپے تک ہوتی ہے جبکہ جدید ترین ایم آر آئی مشین کی کم سے کم قیمت پچپن سے ساٹھ کروڑ روپے ہے اور ایم آر آئی مشین کو نصب کرنے کےلئے زیادہ جگہ اور خصوصی قسم کی پختہ تعمیرات‘ بجلی کی تنصیب و دیگر آلات وغیرہ بھی نصب کرنا پڑتے ہیں۔

 جن پر لاکھوں روپے کے اضافی اخراجات کی وجہ سے یہ مشینیں ترقی پذیر ممالک میں زیادہ عام نہیں‘ ایم آر آئی کے مقابلے سی ٹی سکین مشین کی زیادہ سے زیادہ قیمت ایک سے ڈیڑھ کروڑ پاکستانی کروڑ روپے ہوتی ہے اور اسے نصب کرنے کےلئے ایم آر آئی کی طرح دیگر لوازمات پر زیادہ خرچ اور زیادہ جگہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی‘ شاید یہی وجہ ہے کہ کمپیوٹروں کے ذریعے کورونا وائرس کی تشخیص و تصدیق اور جانچ پڑتال کےلئے جو مصنوعی ذہانت تخلیق کی گئی ہے‘ وہ سی ٹی سکین کے نتائج پر انحصار کرتی ہے اور چونکہ امراض کے بارے تفصیلات جاننے کےلئے زیراستعمال مذکورہ دونوں قسم کی ٹیکنالوجیز ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں‘ اس لئے کورونا کی مصنوعی ذہانت کے ذریعے تشخیص کےلئے ایم آر آئی کا استعمال بھی جلد دیکھنے میں آئے گا‘مذکورہ تحقیق میں چین سے تعلق رکھنے والے 5 لاکھ 32 ہزار کورونا مریضوں کے سی ٹی سکین نتائج ڈیجیٹائز کرنے کے بعد جب کسی مریض کا سی ٹی سکین مصنوعی ذہانت والے کمپیوٹر پروگرام کے سپرد کیا جاتا ہے تو وہ آن کی آن میں پانچ لاکھ سے زیادہ سی ٹی سکین نتائج کےساتھ اسکا موازنہ کرکے بتا دیتا ہے کہ مریض کے اندرونی اعضا کورونا سے متاثر ہیں یا نہیں اور اس کی شدت کیا ہے‘امریکہ کے شہر نیویارک سے شائع ہونےوالا دی سائنٹسٹ سال 1986ءسے ماہانہ اشاعتوں میں ٹیکنالوجی کے انسانی زندگی پر اچھے برے اثرات کی بحث اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استفادے اور اس انحصار سے پیدا ہونے والے امکانات کا جائزہ پیش کر رہا ہے‘ جن پر سائنسی علوم و تحقیق میں دلچسپی رکھنے والوں کی نظریں ہوتی ہیں‘۔

افسوس کہ پاکستان کے اشاعتی و نشریاتی منظرنامے میں کوئی ایک بھی ادارہ ایسا نہیں جو تعلیم کو تحقیق اور تحقیق کو صنعتی پیداوار کے شعبے سے مربوط کرنے جیسی ضرورت پوری کر رہا ہو‘پاکستان کے طول و عرض میں سرکاری و نجی جامعات سائنس و ٹیکنالوجی اور بالخصوص کمپیوٹروں کو مصنوعی ذہانت سے لیس کرنے سے متعلق علوم رسماً پڑھاتی ہیں لیکن فارغ التحصیل ہونےوالے طلبا و طالبات کی اکثریت کےلئے پاکستان میں نہیں بلکہ اچھا مستقبل امریکہ اور مغربی ممالک میں منتظر رہتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم کا شعبہ تحقیق اور بعدازتحقیق صنعتی پیمانے پر پیداوار جیسے مدارج طے نہیں کر پایا‘ المیہ اپنی جگہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے تحقیق کے شعبوں میں نہ تو سرکاری سرپرستی میں ذہانت ‘ تخلیقی قوتوں اور نت نئے تصورات کے بارے باقاعدگی سے مقابلوں کا انعقاد نہیں ہوتا بلکہ حکومت اور نجی شعبے کی شراکت داری سے سائنس و ٹیکنالوجی کو خاطرخواہ ترجیح بھی نہیں دی جا رہی! پراسرار کورونا وائرس نہ تو پہلی اور نہ ہی آخری ایسی عالمی وبا ہے‘ جو انسانی عقل‘ ذہانت اور علم کا امتحان ثابت ہو رہی ہے بلکہ مستقبل میں ایسے کئی خطرات سے نمٹنے کےلئے ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت کی اہمیت و ضرورت کو سمجھا جائے کیونکہ ٹیکنالوجی سے وابستہ معاشرت‘ اقتصاد‘ رہن سہن‘ درس و تدریس اور علاج معالجہ نہ صرف موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں جیسی صورتوں میں راہ نجات ثابت ہو سکتا ہے بلکہ اسی پر نسل انسانی کا وجود‘ بقا اور شفایابی بھی منحصر ہے۔