ٹیسٹ کیس

 خیبر پختونخوا حکومت نے تہکال میں شہری پر پولیس تشدد کے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے ‘تحقیقات 15 روز میں مکمل ہوں گی اور ایک ماہ میں رپورٹ منظرعام پر لائی جائے گی ‘مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے میڈیا کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے ہائیکورٹ کے جج کی نگرانی میں واقعے کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ شفاف تحقیقات سے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ جوڈیشل انکوائری میں تمام ضروری گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوں گے‘ واقعے کے ذمہ داران کا بلا امتیاز تعین کیا جائیگا اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔تشدد میں ملوث پولیس اہلکاروں کےخلاف ایکشن لیا گیا ہے ایس ایس پی آپریشنز کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔ایس ایچ او تہکال سمیت چار اہلکار پہلے ہی معطل تھے جبکہ ان چاروں معطل اہلکاروں کےخلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔ مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان چند برے لوگوں کی وجہ سے پورے معاشرے سے نفرت کرنا شروع کردیں۔ انہوں نے کہا کہ جس نے بھی یہ درندگی کا کام کیا ہے اسے ضرورسزا ملے گی۔چند اہلکاروں کی وجہ سے پوری پولیس کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جاسکتا۔

انسپکٹر جنرل پولیس کا بھی یہی کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کی مثالی پولیس کی سزا بھی مثالی ہوگی‘ پولیس کی بدنامی کا باعث بننے والے اہلکاروں کی فورس میں کوئی جگہ نہیں۔تہکال واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک نوجوان نے نشے میں دھت ہوکر پولیس افسروں کےخلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے اور وےڈیو کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا۔ پولیس نے اسے پکڑکر نہ صرف وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اسے برہنہ کرکے وےڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی تاکہ لوگوں پر اپنی دھاک بٹھاسکیں کہ پولیس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر دونوں وےڈیوز نے ہلچل مچادی‘پورے صوبے میں پولیس کےخلاف غم وغصے کی لہر دوڑگئی پشاور سمیت مختلف شہروں مےں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے اور صوبے میں امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ واقعے کو سیاسی رنگ دیا گیا‘اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کےخلاف خیبرپختونخوا پولیس نے فرنٹ لائن فورس کا کردار ادا کیا ہے اس جنگ میں ہماری پولیس کو سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔تھانہ کلچر کے خاتمے ‘پولیس فورس اور عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے کےلئے گذشتہ چند سال میں کافی اصلاحات بھی لائی گئی ہیں اور پی ٹی آئی کی قیادت کو صوبے کی مثالی پولیس پر فخر ہے اور اس کا تذکرہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن تہکال واقعے نے تھانے کا روایتی کلچر ختم کرنے اورپولیس کو بدلنے کے سارے دعوﺅں پر پانی پھیر دیا ہے۔

‘جس شخص نے پولیس کو گالیاں دےکر وےڈیو اپ لوڈ کی تھی وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھا۔جن کے ہوش ٹھکانے نہ ہوں وہ دیوانوں جیسی باتیں کرتے ہیں بقول ابن انشائ” دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا“لیکن پولیس والے تو دیوانے نہیں تھے‘وہ مکمل ہوش وحواس میں تھے ملزم کی گرفتاری اور چھترول تک بات قابل اعتراض نہیں‘تاہم ملزم کو برہنہ کرنے ‘جنسی تشدد کا نشانہ بنانے اور پھر وےڈیو بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والی بات دیوانگی سے بھی دس قدم آگے ہے‘اس پر عوامی سطح پر شدید ترین ردعمل سامنے آنا فطری امر تھا۔تہکال واقعہ پورے خیبرپختونخوا کی پولیس کےلئے ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے۔پولیس کے نام پر دھبہ لگانے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کسی کو سرکاری وردی اوراختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی جرات نہ ہو۔حکومت کو جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ ضرور منظر عام پر لانی چاہئے تاکہ واقعے کے پس پردہ محرکات کا بھی عوام کو علم ہوسکے اور پولیس فورس کے ماتھے پر لگنے والا داغ بھی مٹایا جاسکے۔