اَقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت (فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن) نے ’ٹڈی دل‘ سے متعلق پاکستان کے زرعی نقصانات پر نظرثانی کرتے ہوئے نئے اعدادوشمار جاری کئے ہیں جن کے مطابق صرف ٹڈی دل سے زرعی شعبے کو کم سے کم ”500 ارب روپے“ کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے لیکن خسار ے کا یہ تخمینہ صرف ٹڈی دل سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں ہے جبکہ کورونا نے بھی زرعی شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کی جانب سے زرعی شعبے کو سہارا دینے کے لئے 37 ارب روپے کی رعایت (سبسڈی) دینے کا اعلان اپنی جگہ اہم لیکن چونکہ زرعی شعبے کو کئی ایسے خطرات لاحق ہیں کہ جن کے لئے اگر خاطرخواہ بڑے پیمانے پر اقدامات و انتظامات نہ کئے گئے تو اقوام متحدہ کو پاکستان میں زرعی نقصانات کے حوالے سے جاری کئے گئے نظرثانی شدہ اعدادوشمار پر (خدانخواستہ) ایک مرتبہ پھر نظرثانی کرنا پڑے گی! برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ تعلیم و صحت کی طرح زراعت بھی حکومت کی خاطرخواہ توجہ سے محروم اور اُن ترجیحات میں سرفہرست نہیں‘ جن کا تعلق ہنرمند (باصلاحیت) اَفرادی ترقی (ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ) کے علاوہ روزگار کے پائیدار ذریعے‘ خوراک اور ماحول کے تحفظ سے ہے۔حکومت نے کھاد کی قیمتوں میں 70فیصد جیسی غیرمعمولی کمی کی ہے ۔
جس کے یقینا مثبت اثرات خریف کی فصل اور آئندہ حاصل ہونے والی زرعی پیداوار پر مرتب ہوں گے کیونکہ کھاد کی قیمتوں میں کمی ایک ایسے وقت (بروقت) کی گئی ہے جبکہ کپاس‘ گنے اور چاول کی نئی فصلوں کی کاشت کا عمل جاری ہے۔ بنیادی طور پر زراعت کے لئے حکومت کا ریلیف پیکیج ایک کھرب سے زائد مالیت کی امدادی حکمت عملی کا حصہ ہے تاہم اِس میں زرعی شعبے کے لئے الگ سے مالی وسائل مختص نہیں کئے گئے اور حکومت کا زیادہ زور نقد رقومات کی تقسیم پر ہے لیکن اگر زرعی شعبے کی بحالی پر توجہ دی جائے اور اِسے سہارا دیا جائے تو ملک میں زراعت سے وابستہ مجموعی روزگار کے ساٹھ فیصد تناسب میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے سے کورونا وبا کے منفی معاشی و سماجی مسائل کا مقامی طور پر پائیدار حل دریافت ہونے کے ساتھ پاکستان کی زرعی برآمدات میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ زرعی شعبہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے اور کورونا وبا سے جہاں دیگر شعبوں کو معاشی نقصان پہنچا ہے وہیں زرعی شعبہ دو طریقوں سے متاثر ہے کہ ایک تو اِسے ٹڈی دل نے نقصان پہنچایا ہے اور دوسرا لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں محدود یا معطل ہونے کے منفی اثرات بھی زرعی شعبے پر مرتب ہوئے ہیں۔کاشتکاروں‘ کسانوں اور باغبانوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اگر اِن کی زرعی پیداوار وقت پر منڈیوں تک نہ پہنچے تو وہ خراب ہونا (گلنا سڑنا) شروع ہو جاتی ہے۔ سبزی اور پھلوں کے علاوہ صنعتی پیمانے پر مال مویشی رکھنے والے محنت کش بھی بحران سے گزر رہے ہیں۔
جن کے دودھ دہی اور اِس سے بننے والی مصنوعات کی مانگ میں مارکیٹیں بند ہونے کی وجہ سے کمی آئی ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے گندم کے کاشتکاروں کو اربوں روپے کا نقصان بھی تحقیق چاہتا ہے۔ حکومت کو کاشتکاروں بالخصوص چھوٹے کاشتکاروں کے زرعی نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ مثال کے طور پر بحرانی دور کی وجہ سے چالیس کلوگرام گندم سرکاری نرخ کے مطابق 1320 روپے میں فروخت کی گئی جبکہ گندم کی مارکیٹ میں قیمت 1580 روپے (فی چالیس کلوگرام) ہے۔ اِسی طرح موسم گرما میں پاکستان سے آم کی برآمد ہوتی تھی‘ جو کورونا وبا کی وجہ سے پچاس فیصد کم ہوئی ہے اور مقامی منڈیوں میں بھی آم کی طلب لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے کم ترین سطح پر ہے۔ اِس صورتحال سے آڑھتی فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ جو فصل اور پھلوں کو اُس قیمت پر خریدتے ہیں جو اِن کی لاگت سے بھی کم ہوتی ہے لیکن بیچارہ کاشتکار اور باغبان کیا کرے کہ موجودہ صورتحال میں کچھ بھی موافق نہیں۔ ایک طرف کورونا وبا کے اثرات ہیں تو دوسری طرف حکمراں جماعت کی ترجیحات میں زرعی شعبہ خاطرخواہ بلند مقام قائم نہیں کر سکا۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ زرعی شعبے کا خسارہ اور نقصانات کم کرنے کےلئے خصوصی امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے۔ اگر صوبائی حکومتیں کسی بھی وجہ سے زراعت کو ترجیحات میں سر فہرست نہیں رکھتیں تو نادر موقع ہے کہ وفاق کی سطح پر موجود تحفظ خوراک سے متعلق وزارت اپنے قیام اور مقصد کی تکمیل کرے۔