وہی ہوا جس کا ڈر (اندیشہ) تھا۔ کورونا وبا کی وجہ سے پاکستان پر عالمی فضائی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں اور اِس سلسلے میں انتہائی تلخ لہجے میں باقاعدہ اور تاحکم ثانی حکم ’متحدہ عرب امارات‘کی جانب سے سننے میں آیا ہے جس نے پاکستان سے آنے والی تمام پروازوں پر تاحکم ثانی پابندی عائد کر دی ہے‘ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے دور میں کسی حقیقت کو زیادہ عرصہ چھپایا نہیں جا سکتا اور پھر ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان میں غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی موجود ہیں‘ جو قومی و مقامی سیاست اور حزب اختلاف و اقتدار کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں پر اپنی توانائیاں اور وسائل ضائع نہیں کرتے بلکہ اُن کی نظریں معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں پر مرکوز رہتی ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کی لمحہ بہ لمحہ خبرنگاری میں کورونا وبا کی صورتحال سرفہرست موضوع ہے‘ پاکستان سے فضائی سفر پر پابندی سے صرف مسافروں کی آمدورفت ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ تجارتی سازوسامان کی نقل و حمل بھی رک جاتی ہے اور دوسرا منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک ائرلائن کی طرح دیگر شہری ہوا بازی کے ادارے بھی احتیاط کرنے لگتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ہنگامی حالات و بحرانوں سے نمٹنے کے قومی ادارے کی جانب پاکستان پر پابندی کے دوٹوک فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ پابندی اُس وقت تک برقرار رہے گی‘ جب تک پاکستان بیرونِ ملک جانے والے تمام مسافروں کے کورونا ٹیسٹ کرنے کا مستند نظام وضع نہیں کرتا اور یہ ایک مشکل ہی نہیں بلکہ تکنیکی اعتبار سے بھی ناممکن ہے کہ کسی شخص کا کھڑے کھڑے کورونا ٹیسٹ کر لیا جائے۔ درحقیقت مسئلہ کورونا ٹیسٹ کا نہیں بلکہ اعتبار اور کورونا کے مستند ٹیسٹ کا ہے جس پر متحدہ عرب امارات کی ائرلائن یقین کر سکے اور اس کی یقین و غیریقینی کی وجہ سے پاکستانیوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فضائی سفر سے متعلق پاکستان کے فیصلوں پر تنقید بھی جاری ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کی فضائی حدود پروازوں کے لئے بند کی گئی جس سے بیرون ملک ہوائی اڈوں پر ہزاروں پاکستانی پھنس گئے۔ پھر چند ہفتوں بعد پروازیں کھولی گئیں تو پاکستان کے ائرپورٹس پر خاطرخواہ احتیاطی تدابیر دیکھنے میں نہیں آئیں اور تیسری غلطی یہ رہی کہ پاکستان میں کورونا وبا سے بچاو¿ کے لئے احتیاطی تدابیر پر کسی بھی عمومی و خصوصی سطح پر یا ائرپورٹس پر سوفیصد عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ دنیا حیران تھی کہ وہ ایک وبا جس سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ہر ملک سہما ہوا ہے لیکن پاکستان اُسی پراسرار وبا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا ہے!پاکستان سے بیرون ملک جانے مسافروں کے کورونا ٹیسٹ حسب حکم کروائے گئے لیکن جب اُن مسافروں کے بیرون ملک پہنچنے پر دوبارہ کورونا ٹیسٹ ہوئے تو کئی مسافروں میں کورونا کی تصدیق ہوئی! اِس کی وجہ سے پاکستان میں کورونا ٹیسٹنگ مشکوک ہو گئی اور نہ صرف حکومت پاکستان کی کارکردگی بلکہ پاکستان میں صحت کے نظام پر بھی سوالیہ نشانات لگ گئے بلکہ یہ تاثر بھی عام ہو ا کہ کورونا وبا سے متعلق حکومت اور بالخصوص شہری ہوا بازی کے ادارے کی کارکردگی غیر سنجیدہ ہے! کورونا وبا کی وجہ سے عالمی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے۔ پاکستان میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد جانچنے کے لئے ٹیسٹنگ کی سہولیات تو موجود ہیں لیکن ٹیسٹنگ میں کمی اپنی جگہ تشویشناک اَمر ہے جس کی بنیاد پر حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ کورونا وبا کا زور ٹوٹ چکا ہے لیکن شاید ایسا نہیں اور دنیا سمجھ رہی ہے کہ ایک ایسی وبا جس سے دنیا نمٹ لے گی لیکن وہ پولیو کی طرح پاکستان میں موجود رہے گی کیونکہ حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے!
متحدہ عرب امارات چاہتا ہے کہ پاکستان سے آنے والے ہر مسافر کا زیادہ سے زیادہ چھیانوے گھنٹے قبل ’کورونا ٹیسٹ‘ کیا جائے لیکن پاکستان کی نجی و سرکاری تجزیہ گاہیں اِس قدر جلد ٹیسٹ فراہم نہیں کر رہیں اور دوسرا مسئلہ اِن نتائج کے قابل اعتماد و بھروسہ ہونا ہے‘ اِس سلسلے میں فیصلہ سازوں کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن پر دنیا اعتبار کرے اور پاکستان کے سر پر منڈلاتے عالمی فضائی سفر کی پابندی جیسے خطرے کو ٹالا جا سکے۔ ہوائی سفر کرنے والوں کے لئے ’فوری نتائج دینے والی ٹیسٹنگ سہولت‘ کا الگ سے آغاز کیا جا سکتا ہے اور اِس کے ساتھ مسافروں کو یہ معلومات بھی فراہم کی جانی چاہیئں کہ ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد کورونا ٹیسٹ کروانے میں غیرضروری تاخیر نہ کریں‘ لمحہ فکریہ ہے کہ جو ممالک سماجی دوری پر عمل درآمد نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے پاکستان سے اپنی پروازیں معطل کر چکے ہیں یا کرنے کا سوچ رہے ہیں لیکن اُن کی اپنی پروازوں میں بھی سماجی دوری پر عمل درآمد کا خاطرخواہ مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا تو یہ نکتہ کون اُٹھائے گا؟ کیا حکمراں خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک سفر ہر دن مہنگا اور ہر دن پہلے سے زیادہ مشکل ہو رہا ہے اور ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستانیوں کے لئے بیرون ملک ہوائی سفر کے حوالے سے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کئے جائیں۔