آسیب کاسایہ

پاکستان کی اِقتصادی ترقی اور معاشی سرگرمیوں سے متعلق حکومتی ترجیحات‘ حکمت عملیوں اور اِن کے نتائج پر نظر رکھنے والے دانشور (تھنک ٹیک) اِدارے ’انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس‘ کے زیرانتظام منعقدہ ’ویبی نار‘ کے شرکا کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ ’آخر پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں کیوں فروغ نہیں پاتیں؟‘ تو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے جن وجوہات کا ذکر کیا وہ کم و بیش ایک جیسی ہی تھیں کہ 1: نجی شعبے کو آسان شرائط اور کم سود پر قرضے نہیں ملتے۔ 2: حکومتی اداروں کے قواعد و ضوابط کاروباری سرگرمیوں کے لئے غیرموافق ہیں۔ 3: ٹیکس عائد کرنے اور وصولی کا طریقہ¿ کار غیرمنصفانہ ہے۔ 4: کاروباری تنازعات کا بذریعہ عدالت حل ہونے کے لئے زیادہ وقت اور مالی وسائل درکار ہوتے ہیںہے۔ 5: کاروباری اور تجارتی لین دین کا بڑا حصہ غیردستاویزی ہے۔ 6: چھوٹے پیمانے پر کاروباری سرگرمیوں کرنے والوں عدم استحکام سے دوچار رہتے ہیں۔ اُور 7: مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید ہر دن کم ہو رہی ہے۔ اِس کے علاوہ بھی کئی ایک نکات کا ذکر ہوا لیکن یہ سات نکات وہ ہیں جن پر سبھی کا اتفاق پایا گیا یا جن کے بارے میں اظہار خیال ہوا۔ ذہن نشین رہے کہ ’ویبی نار (Webinar)‘ کسی موضوع پر غوروخوض کی اُس نشست کو کہا جاتا ہے۔

 جو کسی ایک چھت کے نیچے نہ ہو بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف شہروں اور ممالک سے ماہرین بذریعہ انٹرنیٹ کسی خاص موضوع پر تبادلہ¿ خیال کریں۔ کورونا وبا کی وجہ سے سماجی دوری اختیار کرنے کے لئے دانشور ادارے اپنی سرگرمیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے جاری رکھے ہوئے ہیں جو پاکستان میں ایک خوش آئند تبدیلی ہے اور اُمید ہے کہ حالات معمول پر آنے کے بعد بھی اِس قسم کی نشستوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہے گا جس پر عمومی (روایتی) سیمینار کی نسبت لاگت بھی کم آتی ہے اور اِس میں مقررین کو زیادہ دیر بولنے اور سننے کا موقع بھی ملتا ہے۔کورونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں کاروباری سرگرمیاں مختلف انداز سے جاری ہیں لیکن پاکستان میں روایتی اور غیرروایتی‘ دونوں قسم کے کاروبار خاطرخواہ ترقی نہیں کر رہے اور اِس کی ایک وجہ جعل سازی بھی سامنے آئی ہے کہ اگر کوئی ادارہ کسی نئی اُور تخلیقی سوچ کے ساتھ کوئی کاروبار شروع کرتا ہے تو اُس کی دیکھا دیکھی اور اُس کے نام سے ملتے جلتے ناموں سے کئی غیرمعیاری مصنوعات مارکیٹ میں آ جاتی ہیں بلکہ یہ عمل اِس قدر تیزی سے ہوتا ہے کہ اصل و نقل میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتی ہے اور یوں غیرمعیاری اشیا کی وجہ سے معیاری اُور تحقیقی کاروباری حکمت عملی کامیاب نہیں ہو پاتی۔ اِس سلسلے میں کاروباری طبقات حکومت کی مالیاتی پالیسی سے بھی گلہ مند ہیں‘ جس میں بیرون ملک سرمایہ بھیجنا آسان نہیں اُور کاروباری و تجارتی طبقات چاہتے ہیں کہ پاکستان سے سرمائے کی بیرون ملک (قانونی ذرائع سے منتقلی) کا عمل آسان بنایا جائے۔پاکستان میں کاروبار کرنے اور کاروبار بڑھانے کے لئے ماحول کبھی بھی سازگار (موافق) نہیں رہا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد بھی جب پاکستان آ کر کاروبار کرتے ہیں۔

 تو اُنہیں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہوتی اُور وہ سبھی کاروبار بھی جو بیرون ملک نہایت کامیابی سے چل رہے ہوتے ہیں لیکن پاکستان پہنچنے پر ناکام ثابت ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی چھوٹے بڑے کاروبار کے لئے ماحول سازگار نہیں اور ریاستی ادارے کاروباری سرگرمیوں میں بہتری (اضافے) کی بجائے اُنہیں ٹیکس و دیگر قواعد میں جکڑ لیتے ہیں! پاکستان میں کاروباری ثقافت نام کا وجود نہیں۔ اِس ثقافت کی وجہ سے مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ زیادہ اور بہتر روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ہنرمندوں اور تجربہ کاروں کی اہلیت میں اضافہ ہوتا ہے‘سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کاروباری برادری اصلاح پسند انداز میں ریاستی فیصلہ سازی کا حصہ کیوں نہیں؟ بیشتر کاروبار اور کاروباری تنظیمیں یا ایوان ہائے صنعت و تجارت خاص حالات میں حکومت پر اپنا رعب‘ دبدبہ اُور دباو¿ (اثرورسوخ) ظاہر کرتے ہیں مثلاً ٹیکس اصلاحات اُور معیشت کو دستاویزی بنانے کے مراحل لیکن شاید ہی ملک کا کوئی بھی ادارہ کاروباری ماحول میں بہتری لانے کے لئے حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہر کوئی رعایت چاہتا ہے اور ہر کسی کا مقصود رعایت ہے تو کیا عجب کہ ریاست غیر موثر ہو کر رہ گئی ہے اُور سیاست دانوں کے لئے کاروباری اشرافیہ کے ساتھ ملنے ہی میں بہتری ہے تو ایسی صورتحال میں بہتری اُور اِصلاحات کے لئے لابنگ کون کرے گا؟ کاروباری سرگرمیوں کی بحالی اُور پائیداری ایک ایسا مرحلہ¿ فکر ہے جس پر صرف قومی ہی نہیں بلکہ صوبائی سطح پر بھی غوروخوض ہونا چاہئے اِنٹرنیٹ (ویبی نار) کے ذریعے محفوظ رابطہ کاری اور تبادلہ خیال کے امکانات موجود ہیں‘ جن سے بھرپور استفادہ ہی مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کی کارگر تدبیر ہو سکتی ہے۔