ٹیسٹ کپتان اظہر علی کے بعد نائب بابر اعظم نے بھی ٹاپ آرڈر کو میزبان انگلینڈ کی کمزور کڑی قرار دیا ہے، ویڈیو میڈیا کانفرنس میں انھوں نے کہاکہ ہم حریف کی ابتدائی وکٹیں جلد حاصل کرکے اسے دباؤ میں لا سکتے ہیں، میزبان ٹیم کو ہوم کنڈیشنز کا فائدہ حاصل لیکن پاکستانی پیس بیٹری بھی بڑی جاندار ہے، محمد عباس تجربہ کار اور شاہین شاہ آفریدی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں، نسیم شاہ نے آسٹریلیا اور پھر پاکستان میں بھی اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے قوانین کی وجہ سے گیند کو چمکانے کیلیے تھوک کا استعمال نہیں ہوگا، پسینے کی مدد لینے کے کیا نتائج ہوتے ہیں ہم اس کا تجربہ نیٹ میں کررہے ہیں،آپس میں پریکٹس میچز کھیل کر بھی اندازہ ہوجائے گا، ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کی سیریز میں نئے قوانین کے تحت کرکٹ اور گیند کے رویے میں تبدیلی کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ بیٹسمین بڑا مجموعہ اسکور بورڈ پر سجائیں تب ہی بولرز کو دباؤ سے آزاد ہوکر کارکردگی دکھانے کا موقع ملے گا، موسم ابر آلود ہو تو ڈیوک بال زیادہ سوئنگ ہوتی ہے، دھوپ نکلی ہو تو رویہ مختلف ہوتا ہے،بیٹنگ کوچ یونس خان دونوں صورتوں میں بہتر تکنیک کے بارے میں بتا رہے ہیں،پریکٹس میچز میں بھی بیٹسمینوں کو اعتماد بحال کرنے کا موقع ملے گا۔
ایک سوال پر بابر اعظم نے کہا کہ انگلینڈ پہنچنے سے قبل ہم قرنطینہ وغیرہ کا سوچ رہے تھے کہ پتہ نہیں کیا ہوگا،بہرحال اب کوئی خدشات ذہن میں نہیں، سب پریکٹس سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہورہے ہیں،ماضی میں انگلینڈ میں اچھی کارکردگی کا اعتماد بھی حاصل ہے، تمام کھلاڑی بہترین کھیل پیش کرنے کیلیے پْرجوش ہیں، گذشتہ چند سیریز میں پاکستان نے تجربات کیے تھے اب جونیئرز اور سینئرز کا اچھا کمبی نیشن بن چکا،پہلے توجہ ٹیسٹ کرکٹ پر مرکوز ہے، اس کے بعد ٹی ٹوئنٹی بھی جیتنے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈر تھا کہ طویل وقفے کے کھلاڑیوں کی فارم اور فٹنس پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن ایسا نظر نہیں آیا، سب اچھے ردھم میں ہیں، پریکٹس کیلیے میچز کا کوئی نعم البدل نہیں، آپس میں مقابلوں سے یہ کمی بھی پوری ہوجائے گی۔
بابراعظم نے کہا کہ بائیو سیکیور ماحول میں احتیاطی تدابیر کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑتا ہے،ہم ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھتے ہیں،اس کے باوجود سب میدان میں واپسی پر بہت خوش ہیں، صرف کرکٹ کی بھوک نظر آ رہی ہے، بولنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ پر توجہ مرکوز ہے، ابھی سے پلاننگ جاری ہے کہ کس بولر کو کیسے سامنا کرنا یا بیٹسمین کو کس طرح آؤٹ کرنا ہے۔
ایک سوال پر بابر اعظم نے کہا کہ انگلینڈ میں پاکستان ٹیم کو بڑی حوصلہ افزائی ملتی ہے، بڑی تعداد میں شائقین اسٹیڈیم آتے اور دوست بھی ٹکٹ مانگتے تھے، اس بار ماحول مختلف ہوگا،کراؤڈ کی کمی محسوس ہوگی، بہرحال کورونا کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال میں ابھی کچھ عرصے تک کرکٹ ایسے ہی چلنی ہے، ہمیں بھی بہت جلد نئے قوانین اورکنڈیشنز کا عادی ہونا پڑیگا۔
سابق کرکٹرز کی حوصلہ شکنی کے باوجود بابر اعظم انگلینڈ میں قومی ٹیم کی بہتر کارکردگی کے لیے پْرامید ہیں، انھوں نے کہا کہ سب کا اپنا نکتہ نظر اور انھیں اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے، بہرحال گذشتہ دونوں سیریز میں ہماری کارکردگی اچھی رہی، بیٹنگ اور بولنگ میں ٹیم نے پرفارم کیا، انگلینڈ میں موجود اسکواڈ پر اعتماد ہے، ہمیں اپنی کمزوریوں کا بھی بخوبی اندازہ ہے، اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں گے، ایک عزم کے ساتھ بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔
بابر اعظم انگلینڈ میں ٹرپل سنچری بنانے کے خواہاں ہیں،نائب کپتان کا کہنا ہے کہ جوفرا آرچر سمیت کسی بولر کو نہیں گیندکو دیکھوں گا، قدرتی انداز کھیل نہیں چھوڑتا، ویرات کوہلی کی جگہ پاکستان کے عظیم کرکٹرز سے موازنہ ہو توفخر محسوس کروں گا۔
بابر اعظم نے کہا کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ کارکردگی ٹیم کی فتح کا راستہ بنائے، پہلا ہدف ٹیم کے لیے سنچری بنانا ہوتا ہے،اس کے بعد 150 اور پھر 200 کا سوچتا ہوں،ایک ہدف حاصل ہونے پر اگلا اس سے بھی بڑا اور اہم ہو جاتا ہے، دعا کریں کہ میں انگلینڈ کے خلاف ٹرپل سنچری بناؤں۔
انگلش بولر جوفرا آرچر کی آسٹریلوی بیٹسمین اسٹیون اسمتھ کو جارحانہ بولنگ کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں کبھی کسی بولر کو نہیں گیند کو دیکھتا اور میرٹ پر کھیلنے کی کوشش کرتا ہوں، شارٹ پچ سمیت ہر طرح کی گیندوں کو کھیلنے کی تیاری کر رہا ہوں، ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بیٹنگ کوچ یونس خان سے رہنمائی حاصل ہو رہی ہے۔
انگلش کنڈیشنز میں اپنے اسٹروکس چیک کرنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں اپنا نیچرل کھیل نہیں چھوڑتا لیکن بطور پروفیشنل کنڈیشنز اور بولنگ کو دیکھنا پڑتا ہے، بعض اوقات کریز پر رک کر کھیلنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، کنٹرول حاصل کر لیں تو اسٹروکس بھی آسانی سے کھیلے جاتے ہیں، فارمیٹ کے لحاظ سے اپنا مزاج بھی تبدیل کرنا پڑتا ہے، میرا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کارکردگی ٹیم کے کام آئے۔
بابر اعظم نے کہا کہ میرا ویرات کوہلی کی جگہ سابق عظیم پاکستانی کھلاڑیوں جاوید میانداد، انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان سے موازنہ کیا جائے تو زیادہ فخر محسوس کروں گا۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ مصباح الحق اور یونس خان کی جوڑی نے کئی ریکارڈز بنائے،میں اگر انگلینڈ میں اظہر علی کی شراکت میں کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوجاؤں تو بڑی خوشی کی بات ہوگی۔
ہوٹل سے گراؤنڈ تک محدود کرکٹرز نے دل لگانے کے بہانے ڈھونڈ لیے، بابر اعظم کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بالکل نئی اور مختلف صورتحال میں کسی غلطی کی گنجائش نہیں، ایک کھلاڑی کی غلطی دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے،ہم پروٹوکولز کا مکمل خیال رکھ رہے ہیں، ہوٹل سے گراؤنڈ تک محدود رہتے ہیں، اس دوران بھی سماجی فاصلے کا خیال رکھا جاتا ہے،وقت گزارنے کے لیے انڈور گیمز کھیلتے ہیں، آئندہ سیریز کے حوالے سے پلاننگ کی جاتی ہے، کھلاڑی جتنی جلدی نئی کنڈیشنز کے عادی ہو جائیں ٹیم کے لیے بہتر ہوگا۔
لارڈز میں کھیلنے سے محرومی بابر اعظم کو بھی کھٹکنے لگی،انھوں نے کہا کہ تاریخی میدان میں بیٹنگ کا مزا ہی الگ ہوتا ہے، اس بار یہ موقع نہیں ملے گا، بہرحال موجودہ حالات میں جہاں بھی ممکن ہو کرکٹ کا آغاز ہونا چاہیے،سب کرکٹرز اس بات پر ہی بہت خوش ہیں کہ انھیں ایکشن میں آنے کا موقع مل رہا ہے۔
بابر اعظم کا کہنا ہے کہ محمد رضوان کورونا وائرس سے نجات پا چکے اور جمعے کو انگلینڈ پہنچ کر ٹیسٹ کلیئر ہونے کے بعد اسکواڈ کو جوائن کر لیں گے، بطور وکٹ کیپر بیٹسمین پہلا انتخاب وہی ہوں گے،انھوں نے دورۂ آسٹریلیا میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، اس لیے انھیں مناسب مواقع ملنے چاہئیں۔
چیمپئنز ٹرافی فتح سمیت سرفراز احمد کے انگلش کنڈیشنز میں تجربے سے فائدہ اٹھانے کے سوال پر بابر اعظم نے کہا کہ سابق کپتان سے پہلے بھی بہت کچھ سیکھتا رہا ہوں،ضرورت پڑنے پر بطور نائب کپتان ان کو بتاتا بھی تھا، وہ ایک ٹیم مین اور ساتھی کھلاڑیوں کو بڑا سپورٹ کرتے ہیں،سرفراز ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں، اب بھی ان سے میچ پلاننگ اور نئے قوانین کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔
بابر اعظم نے کہا کہ سینئرز کو کھلانے پر اختلاف کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ ایسی بات کبھی نہیں ہوئی، سب ایک صفحے پر ہوں تو پلان بنتا ہے، میری بھی کوشش ہوتی ہے کہ مینجمنٹ کو اپنی رائے دوں، ان کا موقف بھی سنوں،سب مل جل کر فیصلہ کرتے اور ان کی ذمہ داری لیتے ہیں، جہاں تک سینئرز کی بات ہے تو ان کو ضرورت کے مطابق ٹیم میں شامل کیا گیا، اب بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔