شبیرحسیناکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے (یکم جولائی سے) ملک میں ’آن لائن گیم‘ پلیئر ان نونز بیٹل گراو¿نڈز (PUBG) پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے‘ جو مختلف علاقوں اور مختلف حلقوں کی جانب سے ملنے والی اُن عمومی و خصوصی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا اقدام ہے جن میں فیصلہ سازوں کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی گئی تھی کہ کمپیوٹرز یا موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے ذریعے مذکورہ کھیل (پب جی) بچوں اور نوجوانوں میں پرتشدد جذبات کو بھڑکاتا ہے جبکہ ہر عمر کے بچے اِس کھیل میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہوئے خود کو شدید ذہنی دباو¿ میں مبتلا کر دیتے ہیں‘ جس کا نتیجہ خودکشیوں جیسے رونما ہونے والے متعدد واقعات کی صورت ظاہر ہو چکا ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث ہر عمر کے (نابالغ اور بالغ) بچوں کا مشغلہ ’آن لائن کھیل‘ بن چکے ہیں جن میں ’پب جی‘ نسبتاً زیادہ مقبول ہے جس میں جدید ترین اسلحے کے استعمال سے کھیل کے مراحل (جنہیں مشن کہا جاتا ہے) پورے کئے جاتے ہیں اور یوں ایک کے بعد ایک زیادہ پیچیدہ مرحلہ (مشن) سامنے آتا ہے‘ جس میں اسلحے کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خون خرابہ کرنے والا صارف کامیاب قرار پاتا ہے لیکن یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے کہ ایک مرتبہ آن لائن کھیل کا مزا کسی صارف کو پڑ جائے تو وہ اِس سے باوجود خواہش و کوشش اور پابندی بھی پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کھیل ہوں یا سوشل میڈیا کے وسائل‘ اِن پر حکومت کا نگران ادارہ پابندی عائد کر بھی دے تو اِس کھیل تک رسائی کے کئی ایسے طریقے بھی ہیں۔
جن سے حکومت کے نگران ادارے کو چکما دیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں ’یوٹیوب (YouTube)‘ اور دیگر ایسی ویب سائٹس پر پابندی عائد کی گئی لیکن پاکستان میں اِن ویب سائٹس کے وسائل سے استفادہ حسب معمول جاری رہا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا (نجی ٹیلی ویژن چینلز) کی اکثریت پابندی کے باوجود ’یوٹیوب‘ کا استعمال کرتی رہی کیونکہ یہ نہ صرف تفریح و معلومات تک رسائی بلکہ آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔ کسی آن لائن کھیل پر پابندی عائد کرنے سے بہتر اُس سے متعلق عمومی شعور کی سطح بلند کی جاتی اور اِس سلسلے میں والدین‘ اساتذہ اور تربیت کے سماجی حلقے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں‘ جن میں پرنٹ‘ الیکٹرانک اور آن لائن وسائل کے علاوہ موبائل فون کے مختصر پیغامات سے استفادہ ہونا چاہئے کیونکہ پابندی مسئلے کا حل نہیں!پب جی پر پابندی عائد کرنے سے متعلق جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ”مذکورہ کھےل کے خلاف لاتعداد شکایات موصول ہوئیں اور چونکہ یہ آن لائن کھیل صارف کو اپنا عادی بنادیتی ہے جس سے وقت اور صحت کا ضیاع ہونے کے ساتھ بچوں کی ذہنی‘ جسمانی اور نفسیاتی صحت پر سنگین منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔“ پی ٹی اے کے بیان کا یہ حصہ لائق توجہ ہے کہ اگر صارفین کی جانب سے ”لاتعداد شکایات“ نہ کی جاتیں تو انٹرنیٹ کے نگران حکومتی ادارے کو علم ہی نہ ہوتا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ بچے اور بڑوں کے مشغلے کیا ہیں اور اگر غیرملکی کھیل و دیگر وسائل پاکستان میں متعارف ہونے سے قبل اُنہیں دیکھ بھال کر استعمال کی اجازت دی جائے تو بعدازاں اِس قسم کی عارضی یا مستقل پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے جبکہ نوجوان عادی ہو چکے ہیں تو اُنہیں پابندی جیسے اقدام سے قائل نہیں کیا جا سکے گا
’پب جی‘ کے بارے میں والدین کی شکایات نئی بات نہیں۔ اِس سلسلے میں گزشتہ ماہ ایک مقدمہ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہوا اور دوران سماعت عدالت عالیہ نے ’پی ٹی اے‘ حکام کو حکم دیا کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والوں کے تحفظات دور کرے اور اُن کی شکایات پر خاطرخواہ ضروری کاروائی کی جائے۔ اِس حوالے سے آئندہ سماعت کے لئے 9 جولائی کی تاریخ مقرر ہے۔ عدالتی حکم نامے کے بعد ’پی ٹی اے‘ نے ایک اِی میل ایڈریس جاری کیا اور عوام الناس کو مطلع کیا گیا ہے کہ وہ 10 جولائی تک ’پب جی‘ سے متعلق اپنی شکایات بذریعہ برقی مکتوب ارسال کریں۔ ذہن نشین رہے کہ گزشتہ ماہ (جون دوہزاربیس) کے دوران پب جی کھیلنے کے عادی تین نوجوانوں نے خودکشیاں کی تھیں‘ جس کے بعد سے متعلقہ خاندان اور دیگر والدین بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ صرف ’پب جی‘ ہی نہیں بلکہ ایسی تمام آن لائن کھیلوں پر پابندی عائد ہونی چاہئے جو صارفین کو عادی بنا دیتی ہیں اور تشدد پر اُکساتی ہیں۔ پب جی سے قبل ایک اور آن لائن کھیل ’بلیو وہیل چیلنج‘ پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی جو ’خودکشی پر ابھارنے والی گیم‘ تھی اور اِس کے ذریعے نوجوانوں کو پچاس روز میں کھیل کے پچاس مراحل مکمل کرنے کے لئے دیئے جاتے تھے۔ مذکورہ کھیل پر بھی پاکستان میں پابندی اُس وقت تک عائد نہیں ہوئی جب تک کہ اُس سے ناقابل تلافی جانی نقصانات مسلسل ہونے کی اطلاعات ملنے لگیں۔ پاکستان میں ایسے خطرناک (آن لائن) کھیل کھیلنے کی اجازت ہی کیوں دی جاتی ہے‘ جن سے متعلق دنیا پہلے ہی جانتی ہے کہ یہ منشیات جیسی تاثیر رکھتے ہیں اور نوجوانوں بالخصوص کم عمر بچوں میں نفسیاتی اور ذہنی دباو¿ کا باعث بنتے ہیں؟