محکمہ بلدیات نے کفایت شعاری مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت ٹی ایم ایزکے یوٹیلیٹی بلز، انٹرنیٹ اور سفری و ڈیوٹی الاﺅنس پر 30فیصد کٹوتی کا فیصلہ کیاگیا ہے۔مالی خسارے والی تحصیلوں میںنئی بھرتیوں پر مکمل پابندی عائدکردی گئی ہے۔ خالی آسامیوں پر بھرتی کے لئے لوکل کونسل بورڈ سے اجازت لینا لازمی ہوگا تمام ٹی ایم ایز فیول کارڈ استعمال کرنے کے پابند ہونگے‘ٹی ایم اے اپنی حدود سے باہر سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرسکیں گے‘ لوکل کونسل بورڈ زیادہ اخراجات والی ٹی ایم ایز کا فارنزک آڈٹ کروائے گا‘کسی غیر مجاز ملازم کو گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی سرکاری گاڑی کوافسران نجی استعمال میں لاسکیں گے۔نئے مالی سال کے دوران کوئی فکسڈ تنخواہ پر بھرتیاں نہیں ہونگی‘تمام متفرق اخراجات کو ختم کیا گیا ہے‘ دفاتر میںاے سی کا استعمال محدود کردیاگیا۔مالی طور پر کمزور ٹی ایم اے اپنے بجٹ میں ہاﺅسنگ سکیم کے لئے فنڈز مختص نہیں کر سکتیں‘تفریحی اخراجات یعنی کراکری وغیرہ کی خریداری پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے‘کسی بھی قسم کا اعزازیہ کسی بھی ملازم کو نہیں دیا جائے گا‘غیر معمولی کارکردگی کی بنیاد پر لوکل کونسل بورڈ اعزازیے کی منظوری دے سکتی ہے‘عارضی طور پر کام کا بوجھ بڑھنا کسی بھی ملازم کو اوور ٹائم کا اہل نہیں بناسکتا۔
اوپن چیک دینے پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے‘تحصیل میونسپل انتظامیہ کسی بھی ورکشاپ یا سیمینار کا انعقاد نہیں کر پائے گا۔محکمہ بلدیات کی طرف سے شروع کی گئی کفایت شعاری مہم دیگر سرکاری اداروں کے لئے بھی قابل تقلید ہے۔ تاہم اس مہم کی کامیابی سے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا،ماضی میں بھی حکومتی سطح پر کفایت شعاری اور سادگی اپنانے کی مہمات چلائی جاتی رہی ہیں جن کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔جنرل ضیاءالحق نے اپنے دور حکومت میں اسلام آباد میں دو کلو میٹر تک سائیکل چلا کر کفایت شعاری کی مثال قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ واقفان حال کے مطابق صدر مملکت کے اس پندرہ منٹ کے سائیکل سفر کے اخراجات اس وقت بیس لاکھ سے زیادہ پڑے تھے۔ایسی سادگی پر اردو کا یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ” بخوشی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا“محکمہ بلدیات کی طرف سے کفایت شعاری مہم کے تحت جن اللے تللوں سے احتراز کا ذکر کیا گیا ہے ایسی ہی فضول خرچیاں ہر محکمے میں ہوتی ہیں ان سے قوم کو ایک پائی کا فائدہ نہیں پہنچتا لیکن قومی خزانے پر کروڑوں کا بوجھ پڑتا ہے۔ بچوں کے حقوق، خواتین کے تحفظ، چائلڈ لیبر کے خاتمے، گھریلو تشدد کی روک تھام، غربت کے خاتمے، سادگی کا پرچار کرنے سمیت عوامی دلچسپی کے دیگر موضوعات پر فائیو سٹار ہوٹلوں میں سمینار، مذاکرے اور مباحثے کرائے جاتے ہیں۔
جن کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ اور اخباری تراشوں پر مشتمل فائلیں بناکر سپانسر کرنے والے اداروں سے کروڑوں اربوں روپے اینٹھ لئے جاتے ہیں لیکن جن مقاصد کے لئے یہ مہنگی تقریبات برپا ہوتی ہےں وہ برسرزمین پورا ہوتے نظر نہیں آتے۔سرکار کی ملکیت ہر چیز کو ہمارے ہاں مال غنیمت سمجھ کر لوٹا جاتا ہے۔ کسی دفتر میںاضافی اے سی، پنکھا، ٹیوب لائٹ یا بلب لگا ہو تو اسے بند کرکے بجلی بچانے کی کسی کو توفیق نہیں ہوتی،سرکاری گاڑیوں کا پرائیویٹ استعمال بھی ہمارے ہاں فیشن بن گیا ہے۔ اکثر یہ گاڑیاں بیگم صاحبہ کو شاپنگ کرانے، بچوں کو سکول چھوڑنے ، صاحبزادوں کے سیر سپاٹوں کے لئے استعمال ہوتی ہیں، فیول سرکار کے کھاتے سے ڈالا جاتا ہے خراب ہوجائے تو اس کی مرمت کے لئے دفتر کے پاس وافرفنڈز موجود ہوتے ہیںعام طور پر معمولی خرابی پر سرکاری گاڑیوں کو کھڈے لائن لگایاجاتا ہے۔ حال ہی میں محکمہ آبپاشی کینال ڈویژن کی ملکیتی ایک سرکاری گاڑی سے متعلق خبر نظر سے گزری دس سال پہلے یہ گاڑی حادثے کی وجہ سے معمولی خراب ہوگئی تھی۔ڈرائیور اسے تہکال میں ایک موٹر میکینک کے پاس کھڑی کرکے چلاگیا۔گیارہ سال تک کسی نے اس کی خبر تک نہیں لی۔چند ہفتے قبل محکمے کو اپنی بوسیدہ گاڑی کا خیال آگیا، محکمے کے اہلکار ورکشاپ پہنچے اور گاڑی ضروری مرمت کرکے واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو ورکشاپ کے مالک نے بوسیدہ گاڑی کو قابل استعمال بنانے کا سات لاکھ کا خرچہ اور گیارہ سال تک پارکنگ کا کرایہ اٹھارہ لاکھ روپے ادا کرنے کا تقاضا کیا۔ اگر ہم قومی وسائل کی حفاظت اپنی ملکیت کی طرح کریں تو وسائل کی بچت اور کفایت شعاری کا احساس دل میں پیدا ہوسکتا ہے صرف حکام کو خوش کرنے اور خبروں میں آنے کےلئے اس قسم کی مہم کا ملک و قوم کوکوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔