کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دیدی ہے تاکہ مارکیٹ میں لوگوں کو گندم اور آٹا پورا سال مناسب قیمت پر دستیاب رہے ۔ نجی شعبہ پر گندم کی درآمد کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی جائے گی اور حکومت گندم اور آٹے کی دستیابی کے معاملے کی براہ راست مانیٹرنگ کرے گی صوبوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر گندم جاری کرنے کی پالیسی کا اعلان کریں پنجاب 9لاکھ ٹن گندم آئندہ دو ماہ میں فلور ملوں کو جاری کرے گاپاسکو کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی گندم کی ضروریات کا تعین کرکے دونوں صوبوں کو ضرورت کے مطابق گندم کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے ¾ پنجاب سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے درمیان گندم کی نقل وحمل کو آسان بنایا جائیگا ¾بلاتفریق گندم کی آزادانہ نقل وحمل کو ضلعی او ر صوبائی سطح پر بھی یقینی بنایا جائیگا اگر نجی شعبہ گندم درآمد نہیں کرتا تو حکومت خود درآمد کرے گی تاکہ ملکی ضروریات کے مطابق گندم کا وافر سٹاک موجود رہے ، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے آٹے کی کسی بھی چیک پوائنٹ سے افغانستان سمگلنگ کی سختی سے ممانعت کردی ۔پنجاب گندم پیدا کرنے والا سب سے بڑا صوبہ ہے جو خیبر پختونخوا ، سندھ، بلوچستان اور آزاد کشمیرکو بھی گندم اور آٹا فراہم کرتا ہے ¾خیبر پختونخوا میں گندم کی مقامی پیداوار صوبے کی مجموعی ضرورت کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔
¾پنجاب سے ہر سال ایک سے زائد مرتبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو گندم اور آٹے کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے آٹے اورروٹی کی قیمت میں اضافہ معمول بن گیاہے ¾اگر وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہوں تو اس معاملے کو سیاسی رنگ بھی دیا جاسکتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ایک ہی پارٹی یا اتحادی جماعتوں کی حکومت کے ادوار میں بھی آٹے کا بحران سر اٹھاتا رہا ہے ¾1998ءمیںمسلم لیگ اور اتحادی جماعتوں کی مرکزاور صوبے میںحکومت قائم ہونے کے باوجود آٹے کا سنگین بحران پیدا ہوگیا اور پشاور کے تندوروں پر روٹی کی قیمت سات روپے سے بڑھا کر اٹھارہ روپے کردی گئی، لوگوں کو آٹے کے نام پر چوکر کھلایاگیا ¾موجودہ حکومت کے دور میں بھی گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران خیبر پختونخوا میں بار ہا آٹے کا بحران سر اٹھاتا رہا ¾آج بھی پشاور کی اوپن مارکیٹ میں بیس کلو گرام آٹے کے تھیلے کی قیمت آٹھ سو روپے سے بڑھ کر بارہ سو روپے تک پہنچ گئی ہے ¾روٹی ہر گھر کی روزمرہ کی ضرورت ہے ہر امیر اور غریب، بوڑھا ، جوان، خواتین ، مرداور بچے دن میں تین بار روٹی کھاتے ہیں ¾آٹے کی قیمتوں میں اضافے سے متوسط اور غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ¾آج تک کسی بھی حکومت نے گندم کی نئی فصل کی بروقت خریداری ، محفوظ کرنے اور بلارکاوٹ نقل و حمل کے حوالے سے جامع پالیسی نہیں بنائی، جس کی وجہ سے گندم اور آٹے کی صوبوں کے درمیان نقل و حمل میں تعطل پیدا ہوتا رہتا ہے ¾آٹے کی افغانستان سمگلنگ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے حکومت نے آٹے کی قانونی طور پر برآمد اور سمگلنگ پر پابندی تو لگادی ہے مگر اس پابندی پر عمل درآمد کروانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔
طور خم، نواس پاس اور غلام خان بارڈر کے معروف راستوں کے علاوہ خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع کے دو درجن سے زیادہ غیر روایتی اور پہاڑی راستوں سے آٹے، دودھ کی مصنوعات، گوشت، چکن اور دیگر اشیائے خوردونوش کی افغانستان سمگلنگ کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے اور یہ سارا کام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے کھلے عام ہوتا ہے ¾سمگل کیا جانے والا مال پشاور سے تین گنا زیادہ قیمت پر کابل، قندہار، جلال آباد، کنٹر، بری کوٹ اور افغانستان کے دیگر شہروں میں فروخت کیا جاتا ہے اس میں سمگلنگ کی سرپرستی کرنے والے سرکاری اداروں کا بھی حصہ ہوتا ہے ¾سمگلنگ کے اس دھندے میں ہزاروں افراد ملوث ہیں اس سے نہ صرف مقامی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوتی ہے اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے بلکہ ڈیوٹیوں کی عدم ادائیگی سے قومی خزانے کو بھی سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔چھوٹے صوبوں کی ضروریات کے مطابق گندم اور آٹے کی بلاروک ٹوک نقل و حمل یقینی بنانے کے حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کا فیصلہ خوش آئند ہے لیکن جب تک نقل وحمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ میں ملوث عناصر کا قلع قمع نہیں کیا جاتا، گندم اور آٹے کا بحران سر اٹھاتا رہے گا اور غریب طبقہ استحصال کا شکار ہوتا رہے گا۔