امید بہار

ماحول دوستی کی جامع اِصطلاح کے دو بنیادی جز ہیں۔ پہلا جنگلات کے رقبے میں اضافہ اور دوسرا جنگلی حیات کا احترام اور اِن کا تحفظ یقینی بنانا۔ حکمراں جماعت تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو اِن دونوں امور کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں کا شروع دن (2013ئ) سے احساس ہے اور یہی وجہ ہے کہ شجرکاری مہمات کے ذریعے جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا گیا۔ خلائی سیاروں سے حاصل کی جانے والی تصاویر کی بنیاد پر جنگلات کے رقبے کا ازسرنو تعین و حد بندی یعنی ’جیو فینسنگ‘ کی گئی۔ جنگلات سے تجاوزات کا خاتمہ‘ مقامی افراد کو جنگلات سے مشروط استفادے کی اجازت اور درختوں کی غیرقانونی کٹائی کی روک تھام جیسی کوششیں اپنی جگہ اہم ہیں تاہم سوفیصد کامیاب (کارگر) نہیں لیکن بہرحال درختوں کی غیرقانونی کٹائی جاری ہے۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا کے بالائی علاقے بالخصوص گلیات کے مختلف حصوں میں درختوں کی چوری چھپے کٹائی میں متعلقہ محکمہ¿ جنگلات اور پولیس کی ملی بھگت خارج از امکان نہیں کیونکہ کسی درخت کو اکھاڑ پھینکنا ہی نہیں ہوتا بلکہ اُس کی چھال صاف کرنے اور لکڑی کی ترسیل (نقل و حمل) کے مراحل چوری چھپے مکمل نہیں ہو سکتے۔ لکڑی کی غیرقانونی نقل و حمل کے لئے نماز فجر سے چند گھنٹے قبل کا وقت چنا جاتا ہے جبکہ شاہراو¿ں پر آمدورفت کم اور بازار میں بھیڑ بھاڑ نہیں ہوتی۔

 ہزارہ ڈویژن کے بالائی علاقوں براستہ ایبٹ آباد و دیگر مرکزی شہروں لکڑی کی ترسیل غیرروایتی راستوں سے کی جاتی ہے اور مقامی افراد اِس پورے عمل کے عینی شاہد ہیں لیکن اگر یہ لاقانیت کسی کو نظر نہیں آ رہی تو وہ محکمہ جنگلات کے اہلکار ہیں۔ تحریک انصاف سرکاری محکموں کا قبلہ درست کرنے کے لئے تبدیلی اور اصلاح کا عزم رکھتی ہے تو یقینا (پہلی فرصت میں) محکمہ جنگلات کی صفوں میں چھپی کالی بھیڑوں کو بھی صاف کیا جائے گاکیونکہ شجرکاری مہمات جیسی کوششوں کو ناکام بنانے والے محرکات کی بھی اِصلاح ہونی چاہئے۔تحریک اِنصاف کے لئے جنگلات پر مشتمل علاقوں کو ’قومی پارک‘ کا درجہ دینے جیسی اہم ضرورت بھی توجہات کی منتظر ہے۔ قدرت کے بنائے ہوئے تنوع کو برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی ملک میں قومی پارکوں کا قیام ”بین الاقوامی عمل“ بن گیا ہے اور اِس نے بہت سارے ممالک کو جنگلات کٹائی کا رجحان تبدیل کرنے اور اپنے پودوں و حیوانات کو محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کی ہے۔ رواں ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ملک بھر میں پندرہ ’قومی پارکس‘ قائم کئے جائیں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اِن نیشنل پارکس میں سے 9 نئے جبکہ 6 پہلے ہی قائم کرنے کے اعلامیے جاری ہو چکے ہیں بہرحال اِس اقدام سے امید ہے کہ ملک کی ماحولیاتی صورتحال بہتر ہوگی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ توقع ہے کہ ’نیشنل پارکس پروگرام‘ میں جسے ’پروٹیکٹڈ ایریا انیشی ایٹو‘ بھی کہا جاتا ہے کے تحت شمالی علاقوں اور بالائی خیبرپختونخوا کے پہاڑوں سے لے کر ملک کے جنوب میں واقع جنگلات‘ میدانی اور سمندری محفوظ علاقوں تک سات ہزار مربع کلومیٹر رقبے کا احاطہ کیاجائے گا۔ اس مقصد کے لئے قومی پارکس کے تحفظ کے لئے صوبوں کو ہدایات دی جائیں گی۔

شک و شبے سے بالاتر ہے کہ یہ اقدام آئندہ نسلوں اور خاص کر نوجوانوں کے لئے سودمند ثابت ہوگا لیکن کچھ نکات ایسے بھی ہیں جن پر قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کی توجہ اور قومی سطح پر بات چیت (بحث و مباحثہ) ہونا چاہئے۔ فیصلہ سازی کے مراحل میں صرف اعلانات پر ہی اِکتفا کافی نہیں بلکہ اِن کے بارے میں قومی سطح پر وسیع غوروخوض اور ماہرین کے ساتھ مقامی افراد کی رائے بھی شامل ہونی چاہئے‘ جس کا بہترین ذریعہ بلدیاتی ادارے اور نمائندے ہیں۔ نیشنل پارکس کے قیام جیسے انقلابی اقدام سے قریب پانچ ہزار نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں گی لیکن اگر حکمت عملی کے مقاصد اور اہداف محدود رہے اور اُن میں گہرائی کا عنصر شامل حال نہ ہوا تو قومی خزانے پر پانچ ہزار ملازمین کا بوجھ بڑھ جائے گا لیکن جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ (حسب توقعات) ممکن نہیں ہو پائے گا۔ جولائی دوہزار اٹھارہ (2 برس) سے تحریک انصاف اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لئے مختلف حکمت عملیوں کا اعلان کر رہی ہے تاہم کئی اعلانات پر ہنوز عمل درآمد سست روی سے ہو رہا ہے ۔

جیسا کہ ہزاروں کی تعداد میں تعلیمی وظائف‘ لاکھوں مکانات کی تعمیر‘ لاکھوں کی تعداد میں نئی ملازمتیں‘ نوجوانوں کے لئے فنی تربیت‘ ہنرمند افرادی قوت سے متعلق قومی حکمت عملی‘ یکساں نصاب تعلیم اور غیرطبقاتی نظام تعلیم کا قیام‘ ماضی کے غیرترقیاتی منصوبوں کو ختم کرنا‘ طرز حکمرانی کی بہتری‘ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تحقیق‘ توسیع و اِصلاحات اور بہت کچھ وغیرہ وغیرہ کہ برسرزمین حقائق عکاس ہیں کہ حکومتی سطح پر کئے گئے تمام وعدے اور اِعلانات پورے نہیں ہوئے۔ پاکستان اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں مزید اعلانات کی نہیں بلکہ ٹھوس پیشرفت (اقدامات) کی ضرورت ہے اور منصوبہ سازی سے قبل اِس بات کو بھی دھیان میں رکھا جائے کہ نیشنل پارکس پروگرام بھی تاخیر کا شکار نہ ہو۔ قومی پارکوں کا اقدام اہم اور ضروری ہے‘ جسے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کو آب و ہوا کی تبدیلی اور کرہ¿ ارض کے درجہ¿ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) جیسے خطرات کا سامنا ہے تو اگر 10 ارب درختوں (شجرکاری مہم) کو ہنگامی بنیادوں پر وقت سے پہلے مکمل کر لیا جائے تو اِس سے پاکستان کا ماحولیاتی تحفظ زیادہ یقینی ہو جائے گا۔ پاکستان میں جنگلات کی صورت ’محفوظ‘ قرار دیئے گئے علاقے کل رقبے کا 13 فیصد ہیں اور اگر اِن میں مزید 9 نیشنل پارکس کا حسب اعلان اضافہ (عملاً) کر دیا جاتا ہے تو یہ ’15فیصد‘ تک بڑھ جائے گا‘ جو اپنی جگہ خوش آئند اور اہم ہوگا۔ حکمراں پرعزم ہیں تو عوام کو بھی اُمیدِ بہار رکھنی چاہئے۔