بچوں کا اغوا ءاور گداگری

اس معصوم بچی کو گیارہ ماہ قبل کرم ایجنسی کے علاقے صدہ سے اغواءکیا گیا تھا جس کے بعد اس کو پشاور منتقل کیاگیا جہاں ایک گروہ نے اسے پیشہ ورگداگر بنا دیا اسے روزانہ صبح سویرے بھیجا جاتا کہ وہ گلیوں محلوں اور بازاروں میں بھیک مانگے پولیس کے مطابق گروہ جس میں دو مردوں کے علاوہ دو خواتین بھی شامل ہیں دن بھر اس کی نگرانی کرتا تاکہ وہ بھاگ کر گھر واپس نہ جا سکے اور نہ ہی کسی کواپنی اصلیت کے بارے میں بتا کر ان کے ذریعے پولیس تک رسائی حاصل کر سکے بچی کو اس روز تشدد کا نشانہ بنایا جاتا جس روز وہ کم پیسے کماتی ‘ گیارہ ماہ کے دوران وہ بے شمار تکالیف سے گزری مگر بالاخر گلبہار پولیس کو اس کے بارے میں معلوما ت حاصل ہوئیں تو اہلکاروں نے کاروائی کرتے ہوئے بچی کو برآمد کر لیا ساتھ میں دو مردوں اور دو خواتین اغواءکاروں کو بھی گرفتار کر لیا اور پھر بالآخر بچی کو والدین کے حوالے کر دیاگیا یہ صرف ایک بچی کی کہانی نہیں ایسی ان گنت بچیاں ہیں جو والدین کی معمولی غفلت کی وجہ سے گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں جو ان کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں جرائم پیشہ افراد ان بچوں اور بچیوں کو اغواءکرنے کے بعد دوسرے شہر منتقل کر دیتے ہیں ان پر تشدد کرتے ہیں ان کے ہاتھ پاﺅں یا دوسرے اعضاء توڑ دیتے ہیں یا زخمی کر دیتے ہیں تاکہ وہ معذور بن کر زیادہ بھیک اکٹھی کر سکیں اس طرح کی ایک بچی کو کچھ عرصہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان سے برآمد کیاگیا تھا بچی کو بڈھ بیر کے قریب سوڑیزئی سے اغواءکرنے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کیا گیا تھاجہاں اس سے بھیک منگوائی جاتی ہم روزانہ اپنے اردگرد گلی محلے بازاروں میں دکانداروں اور ریستورانوں کے باہر گداگر بچوں اور بچیوں کی ایک بڑی تعداد دیکھتے ہیں ان میں نجانے کتنے ایسے بچے ہوں گے۔

 جن کو والدین اور خاندان سے دور کرکے گداگری کےلئے استعمال کیا جاتا ہو گا ‘ گلبہار کا واقعہ حکومت اور پولیس کےساتھ ساتھ سوشل ویلفیئر اور دیگر متعلقہ اداروں کےلئے ایک پیغام ہے کہ ایسے گروہوں کے خلاف کاروائی کرکے ان بچوں اور بچیوں کو بحفاظت ان کے چنگل سے آزاد کیا جائے اور جو اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں ان کےخلاف بھرپور کاروائی کی جائے پشاور پولیس کے سربراہ محمد علی گنڈا پور کے مطابق وہ جلد دوسرے محکموں کے اشتراک سے ایسے گروہوں کے خلاف کاروائی شروع کر رہے ہیںکیونکہ اس سے کئی بچوں اور بچیوں کو ان افراد کے چنگل سے آزاد کرایا جا سکے گا جو ان بچوں کو والدین سے دور کرکے اپنی کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اس میں معاشرے کو بھی اہم کردار ادا کرنا ہو گا روزانہ جو بچے اور بچیاں ان کے پاس بھیک مانگنے آتے ہیں ان سے پیار اور محبت سے یہ پوچھنا کہ ان پر کوئی زبردستی تو نہیں کر رہا کیا وہ والدین کے پاس رہتے ہیں اور کیا وہ گھر کی معاشی مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگتے ہیں یا کوئی اور ان سے دھند ا کروا رہا ہے ظاہر ہے بڑی تعداد ان بچو ں اوربچیوں کی ہو گی جن کو اپنے گھر والے خیرات مانگنے کےلئے بھیجتے ہیں اول تو گداگری بذات خود جرم ہے اور حکومت اور اداروں کا فرض ہے کہ ایسے خاندانوں کی کفالت کےساتھ ساتھ ان بچوں اور بچیوں کی تعلیم کا بندوبست کرے ‘ دوسری صورت میں کم از کم ان بچیوں اور بچوں کی مدد کریں جن سے زبردستی یہ دھندہ کروایا جا رہا ہے یا تو ان کے والدین فوت ہوئے ہوتے ہیں یا بیمار اور معذور ہوتے ہیں اور گھر چلانے والا کوئی نہیں ہوتا یا والد نشے کا شکار ہوتا ہے اور یا گھر بیٹھ کر خیرات کھانے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے گداگروں کی ایک بڑی تعداد جن میں مرد اور خواتین بھی شامل ہیں۔

 ان افراد کی ہے جو صحت مند اور کام کاج کے قابل ہوتے ہیں مگر چونکہ گداگری انکے لئے زیادہ آسان اور زیادہ کمانے کا ذریعہ بھی ہے اس لئے وہ مزدوری کرنے کی بجائے بھیک مانگتے ہیں آج کل تو شہر میں ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو ان لوگوں کا حق ما ررہے ہیں جو واقعی خیرات اور زکواة کے مستحق ہیں مگر مانگ نہیں سکتے گداگری بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے جس کو حکومت کو سنجیدہ طور پر حل کرنے کےلئے عملی اور موثر اقدامات ضرور اٹھانے چاہئیں مگر بچوں کو اغواءکرکے ان سے بھیک منگوانا ایک سنگین ترین جرم ہے جس میں ملوث مردوں اور خواتین کے خلاف بھرپور کاروائی شروع کرکے ان کو قرارواقعی سزا دینے کی ضرورت ہے خدا کرے ہماری حکومت اور پولیس اس سلسلے میں جلدمزید موثر کاروائیاں کریں اور مزید بچوں اور بچیوں کو والدین سے ملوا سکیں۔