حیوانات کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہر سال ایشیا میں تین کروڑ کتے مارے جاتے ہیں
کمبوڈیا کے ایک صوبے میں کتے کا گوشت بیچنے اور کھانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
کمبوڈیا کا صوبہ ’سیم ریپ‘ انگکور واٹ مندر کمپلیکس کے لیے مشہور ہے لیکن جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ کتوں کے گوشت کی خرید و فروخت کا مرکز بن گیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس پابندی کے بعد کتے کا گوشت کھانے اور فروخت کرنے پر پانچ سال کی قید یا 12 ہزار ڈالر تک جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔
گذشتہ چند مہینوں میں ایشیا کے کئی دوسرے ملکوں میں بھی کتے کے گوشت کی فروخت اور کھانے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے خیراتی ادارے ’فور پا‘ کے مطابق کمبوڈیا میں کتے کا گوشت وسیع پیمانے پر نہیں کھایا جاتا اور صرف 12 فیصد لوگ مستقل بنیادوں پر کتے کا گوشت کھاتے ہیں۔ فور پا کمبوڈیا کے صوبے سیم ریپ کو کتے کے گوشت کی فروخت اور تجارت کا مرکز قرار دیتا ہے۔
سیم ریپ صوبے کے زراعت، جنگلات اور ماہی گیری کے ڈائریکٹر ٹی کمسوتھ نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ سیاحت کی وجہ سے بھی کتے کے گوشت کی طلب میں تیزی آئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جنوبی کوریا سے اس علاقے میں سیاحت کے لیے آنے والوں میں کتے کا گوشت بہت مقبول غذا ہے۔
فور پا نامی خیراتی تنظیم نے اس پابندی کا خیر مقدم کیا ہے۔
اس خیراتی ادارے کی جنوب مشرقی ایشیا کی سربراہ ڈاکٹر کیتھرین پولاک کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ کمبوڈیا کے باقی صوبے بھی اس فیصلے کی تقلید کریں گے اور لاکھوں کروڑوں کتوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل نامی ادارے کے مطابق ہر سال ایشیا میں تین کروڑ کتے خوراک کی غرض سے ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔
اس سال اپریل میں چین کے شنژان صوبے میں سب سے پہلے کتے اور بلی کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس مہینے انڈیا کی ریاست ناگالینڈ نے بھی کتے کے گوشت کی درآمد، تجارت اور فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔