سابق وزیراعظم اور مسلم لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اگر بحرانوں اور مشکلات سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنا منہ بند رکھیں کیونکہ جب وہ بولتے ہیں تو اپنے لئے نئے نئے محاذ کھولتے ہیں ہمارے وزیراعظم کی نیک نیتی پر کسی کو کوئی شک نہیں مگر ان کے رفقاءاوردائیں بائیں بیٹھنے والے لوگ اکثر انہیں غلط مشورے دے کر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے پروٹیکٹیڈ ایریا انیشی یٹیو کے تحت ملک بھر میں پندرہ نیشنل پارکس بنانے کے منصوبے کااعلان کیا ہے۔انہوں نے چترال میں واقع دنیا کے بلند ترین قدرتی سٹیڈیم اور پولو گراونڈ شندور کو بھی سکیم میں شامل کیا ہے اور اسے خندراب شندور نیشنل پارک کا نام دے کر گلگت بلتستان حکومت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔وزیراعظم عمران خان خود شاید کبھی شندور نہیں گئے اور نہ ہی اس خطے کی تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں انہیں آگاہی ہے ۔چترال اور گلگت بلتستان کی تاریخ، تمدن، ثقافت، اقدار اور روایات میں غیر معمولی ہم آہنگی پائی جاتی ہے گلگت کے چالیس فیصد علاقے میں چترال کی زبان کہوار بولی جاتی ہے دونوں خطوں کے عوام میں مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں علاقے کئی عشروں تک مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے ماتحت رہے ۔
تقسیم ہند کے وقت باﺅنڈی کمیشن نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر کو متنازعہ علاقہ رکھا ۔1948میں بھارت نے فوجی طاقت کے ذریعے پورے کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ گلگت کے عوام اور چترال سکاوٹس نے بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوائے اور انہیں سری نگر تک پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ سکردو میں بھارتی فوج سے چھینی گئی توپیں آج بھی چترال کے شاہی قلعہ میں اس تاریخی واقعے کی یاد دلا رہی ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام نے چترال کی عسکری مدد سے اپنے علاقے کو سکھوں اور بھارتی افواج سے خود آزاد کروایا ہے اس کے باوجود گلگت کو کشمیر کا حصہ قرار دے کر متنازعہ علاقے کی حیثیت دی گئی ۔ وہاں کے شہریوں کو اب تک پاکستان کا مستقل شہری نہیں گردانا جاتا۔ حالانکہ گلگت بلتستان کے عوام حد درجہ محب وطن ہیں اور انہوں نے پاکستان کے لئے بیش بہاقربانیاں دی ہیں۔کارگل کی جنگ میں گلگت بلتستان کے ہر دوسرے گھر سے جنازہ اٹھا، نشان حیدر کا اعزاز پانے والے قابل فخر سپورت حوالدار لالک جان کا تعلق بھی گلگت کے علاقہ غذر سے ہے۔ پاکستان نے گذشتہ 73سالوں سے اپنے علاقے گلگت بلتستان کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرکے متنازعہ علاقہ بناکررکھا ہے اب شندور کو بھی اس متنازعہ علاقے میں شامل کرکے ایک اور تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ رئیس خاندان کی حکومت پورے چترال کے علاوہ گلگت اور یاسین تک پھیلی ہوئی تھی اسی طرح خوش وقت دور میں ان کی حکمرانی پورے گلگت کے ساتھ چترال کے علاقہ نوڑ تک رہی ہے جب چترال میں کٹور خاندان برسراقتدار آیا تو سر شجاع الملک نے 1926میں شندور کے موجودہ پولو گراونڈ مس جنالی کے ساتھ ڈاک بنگلہ تعمیر کروایا جو آج بھی چترال سکاوٹس کے زیر استعمال ہے۔16اگست1928کو کمانڈنٹ گلگت سکاوٹس نے انگریز فوجی افسر کیپٹن کوب کی وساطت سے سرشجاع الملک سے شندور بنگلے میں عارضی قیام کاتحریری اجازت نامہ حاصل کیا جو ریکارڈ پر موجود ہے۔1960کے عشرے سے شندور میں گلگت اور چترال کی پولو ٹیموں کے درمیان چوگان بازی کے مقابلے ہوتے رہے ہیں اور اس جشن کا اہتمام چترال سکاوٹس اورچترال کی ضلعی انتظامیہ کرتی رہی ہیں ۔2010میں گلگت بلتستان کے چند افراد نے شندور پر دعویداری کی اور یہ معاملہ ابھی تک مشترکہ مفادات کونسل میں موجود ہے۔
شندور دراصل چترال کے علاقہ لاسپور کے عوام کی گرمائی چراگاہ ہے لاسپور کے لوگ اپنے مال مویشی لے کر گرمیوں میں شندور جاتے ہیں اور کئی مہینے وہاں رہتے ہیں ان کی جھگی نما رہائش گاہیں وہاں اب بھی موجود ہیں۔وزیراعظم عمران خان کو اس قسم کے فیصلے کرنے سے قبل تاریخی حقائق سے خود آگہی حاصل کرنی چاہئے ۔خیبر پختونخوا حکومت اور وزیراعلیٰ محمود خان کو بھی اس سلسلے میں وفاق کے ساتھ فوری رابطہ کرکے غلطیوں کی تصحیح کرنی چاہئے اگر اس مسئلے کے فوری حل پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو آئندہ یہ ایک بڑے تنازعے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔