کورونا وبا کے پیش نظر تعلیمی اداروں کی فوری بندش آسان لیکن درس و تدریس کا عمل بحال کرنا ہر گزرتے دن مشکل سے زیادہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ دیگر کاروباری اور سماجی سرگرمیاں بحال ہیں تو درس و تدریس کا عمل معطل رہنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ تازہ ترین پیشرفت یہ ہے کہ قومی و صوبائی سطح پر متعلقہ فیصلہ سازوں کا جس ایک نکتے پر اتفاق ہو چکا ہے وہ یہ ہے کہ عیدالاضحی کی تعطیلات یا چودہ اگست کے فوراً بعد ملک میں تعلیمی سرگرمیاں اُن احتیاطی قواعد و ضوابط (SOPs) کی روشنی میں (مشروط) بحال کر دی جائیں‘ جو کورونا وبا کے ممکنہ پھیلاو¿ کو روکنے اور سماجی دوری اختیار کرنے سے متعلق وضع کی گئی ہیں لیکن اِس سلسلے میں تلخ و شیریں تجربات سے عیاں ہے کہ کاروباری و سماجی سطح پر جہاں کہیں معمولات زندگی بحال کئے گئے وہاں وہاں مذکورہ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔ اِس سلسلے میں پبلک ٹرانسپورٹ اور کاروباری و تجارتی مراکز کی مثالیں موجود ہیں‘ جہاں اِحتیاط تو بہت دور کی بات اکثریت نے قواعد و ضوابط کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی۔ بالکل اِسی طرح تعلیمی اداروں میں ہاتھ دھونے‘ جراثیم کش ادویات سے راہداریوں اور کمروں کی صفائی‘ تدریسی عملے کے لئے ماسک کا لازمی استعمال‘ جسمانی درجہ¿ حرارت معلوم کرنے کے بنا چھوئے خصوصی آلات‘ طلبہ کی صحت و تندرستی پر نگاہ‘ طالب علموں کا آپسی اور تدریسی عمل کے دوران فاصلہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایسے سرکاری و نجی تعلیمی اِدارے بھی ہیں۔
جہاں ایک کمرے (کلاس روم) میں تیس سے ساٹھ طلبہ زیرتعلیم ہوتے ہیں۔ جن سکولوں میں پینے کے پانی دستیاب نہ ہو وہاں کےلئے صابن سے ”بار بار“ ہاتھ دھونے کو لازم قرار دینا مذاق نہیں تو کیا ہے!؟حقیقت حال یہ ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرنے جیسے عجلت میں کئے گئے فیصلے کے بعد تدریسی عمل مذاق ہی مذاق (جلدبازی) میں صرف اِس وجہ سے بحال نہ کیا جائے کہ ایسا کرنے کےلئے نجی تعلیمی اداروں کا حکومت پر دباو¿ ہے بلکہ نجی تعلیمی اداروں کو اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے منافع میں سے کورونا سے بچاو¿ کے حفاظتی انتظامات کریں گے‘ ماضی میں جب تعلیمی اداروں کےلئے چاردیواریوں پر خاردار آہنی تاریں اور نگرانی کے الیکٹرانک آلات بشمول کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو اُس کی قیمت بھی والدین (صارفین) سے وصول کی گئی اُر کئی سکولوں نے ماہانہ فیس میں ’سیکورٹی چارجز‘ کے نام سے نئی مد کا مستقل اضافہ تک کر دیا۔ دیگر کاروباری طبقات کی طرح نجی تعلیمی اِداروں کی نمائندگی اور قانون ساز ایوانوں میں مفادات کا تحفظ کرنے کےلئے موجودگی راز نہیں‘ مفادات سے متصادم اِس طرزحکمرانی کے باعث عام آدمی (ہم عوام) کے بطور صارفین حقوق پائمال ہو رہے ہیں اور یہ صورتحال متقاضی ہے کہ قانون ساز ایوانوں کی ’مذاق ہی مذاق‘ میں بحالی کی بجائے درپیش معاملے (قضیے) کا یہ غیرروایتی اور سنجیدہ حل دریافت کیا جائے جس میں تعلیمی اداروں کے اوقات کار میں اضافہ اور مختلف درجات میں زیرتعلیم طلبہ و طالبات کے لئے الگ الگ اوقات مقرر کئے جا سکتے ہیں ۔
لیکن اِس کا بوجھ فیسوں میں اضافے کی صورت صارفین (والدین) سے وصول نہیں ہونے چاہیئں۔ سکول وینز (بچوں کو سکول لانے لیجانے کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں) کے لئے الگ سے قواعد و ضوابط تشکیل دینا ہوں گے‘ جن کی ضرورت کورونا وبا سے قبل بھی محسوس کی جا رہی تھی لیکن اِس بارے میں والدین کے مطالبے پر فیصلہ سازوںنے خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔ سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی‘ معیار تعلیم اور نظم و ضبط کا ثبوت اگر بہتر سالانہ کارکردگی (اِمتحانی نتائج) ہوتے تو نجی تعلیمی ادارے سنسان ملتے لیکن ایک خاص حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے تحت سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار خراب اور نجی تعلیمی اداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا۔ یہ معاملہ (بے قاعدگی) صرف بنیادی و ثانوی تعلیم تک ہی محدود نہیں بلکہ نجی تعلیمی اِداروں کا حکیمانہ طریقہ¿ واردات (اِجارہ داری‘ دیدہ دلیری اور سینہ زوری) کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِمتحانی بورڈز کے سربراہوں کو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد پُرکشش تنخواہوں اور مراعات کےساتھ نجی سکولوں میں ملازمتیں دی جاتی ہیں یقینا یہ اُن کی ملازمت کے دوران کی جانے والی خدمات کا صلہ ہے!
کورونا وبا کے سبب درس و تدریس کا عمل معطل ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے ’پاکستان ٹیلی ویژن‘ کی مدد فاصلاتی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا لیکن یہ تجربہ بھی خاطرخواہ کامیابی کے مراحل طے نہ کر سکا کیونکہ نجی تعلیمی اداروں نے تعاون نہیں کیا اور سرکاری ملازمین اپنے کام سے کام رکھتے ہیں! آن لائن تعلیم کی طرح بذریعہ ٹیلی ویژن تعلیم کی پہلے سے تیاری بھی نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی اساتذہ کےلئے کسی نئے تدریسی نظام کو سمجھنا آسان تھا فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ فاصلاتی تعلیم کی جدید شکل انٹرنیٹ ہے اور پاکستان میں براڈبینڈ صارفین کی تعداد 7 کروڑ جبکہ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ حاصل کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ اِس کے مقابلے ٹیلی ویژن صارفین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ فاصلاتی تعلیم میں ٹیلی ویژن کسی بھی ملک میں اِس لئے کامیاب نہیں کیونکہ کسی ایک درس کو بار بار دیکھنے یا اُس کے نشر ہونے کے مقررہ اوقات کے بعد اُس تک رسائی حاصل کرنا اور ٹیلی ویژن کے ذریعے معلم یا معلمہ کے ساتھ بات چیت بھی ممکن نہیں ہوتی۔